Thursday, 29 December 2016

translation of book




کتاب کا ترجمہ اور میرے تاثرات

کتابیں پڑھنے کا شوق شروع سے تھا مگر دین سے حقیقی معنوں میں وابستگی کے بعد بہت سا دینی لٹریچر بھی پڑھا۔ان میں  چند کتابیں ایسی تھیں جنہوں نے مجھےبہت متاثر کیا،میری شخصیت سازی میں اہم کردار کیا، میری تربیت کی اور مجھے اندر سے بدل ڈالا۔ان بہتریں کتابوں میں سے ایک یہ ہے۔۔۔

 بنیادی طور پر یہ کتاب حصول علم کے آداب کے  بارے میں ہے۔

کتاب کا تعارف 
اس کتاب کا نام "حلیۃ طالب العلم " ہے۔حلیہ سے مراد زینت ہے اور مومن کے آداب واخلاق ہی اس کی زینت ہوتے ہیں۔
 مختصرا یہ کتاب ان تمام موضوعات پر بحث کرتی ہے جن کی ایک طالب علم کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جن سے آراستہ کرے۔ کتاب کی عربی آسان نہیں خاص طور پر اصل کتاب کا متن(شیخ بکر رحمہ اللہ نے جو لکھا ہے) سمجھنا مشکل کام ہے کیونکہ مؤلف کے لکھنے کا انداز اور الفاظ کا چناؤ اسلاف کی کتب جیسا ہے کہ جامع اور نایاب کلمات کے ذریعے سے اپنے مؤقف کو بیان کیا ہے مگر شیخ صالح عثیمین رحمہ اللہ نے اس کی آسان لفظوں میں تشریح کرکے اس کو عام قاری کے لئے قابل فہم بنا دیا ہے 
اس کی مثال ایسی ہے کہ حدیث یا فقہ کی کوئی کتاب ہوتو مدرس کا کمال ہے کہ وہ آپ کو کس  خوبصورتی سے بات کو سمجھاتا ہے اور اس کےتمام پہلوؤں کو واضح کرکے آسان اور قابل فہم بنا دیتا  ۔(شیخ صالح نے یہ کتاب اپنے طلبا کو قرآن و احادیث اور اسلاف کے ایمان افروز واقعات کی مدد سے بہت خوبصورتی سے پڑھائی ہے کہ پڑھنے والے کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور محض دو تین صفحات پڑھنے سے ہی بہت سے عملی نکات مل جاتے ہیں، ان کے آڈیو لیکچرز کو ہی کتاب کی شکل دی گئی ہے جو کہ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔اصل کتاب کے متن کا ترجمہ انگریزی زبان میں موجود ہے  شرح کا ترجمہ ابھی تک کسی زبان میں بھی کتابی صورت میں موجود نہیں  مگر الحمدللہ اب اس کا ترجمہ اردو زبان میں مکمل کر لیا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ اس کی طباعت کا کام جلد مکمل ہو جائے۔

بہت سے دینی اداروں میں یہ کتاب پڑھائی جا رہی ہے ۔

 یہ کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے کئی حصوں میں منقسم ہے

پہلا حصہ:اس میں طالب علم کےشخصی و ذاتی آداب کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کو کن کن صفات سے مزین ہونا چاہیئے
دوسرا حصہ:علم حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیئے کس انداز اور کن درجوں میں حاصل کیا جائے( مثلا براہ راست استاد سے یا کتابوں سے اور ابتدا میں کون کون سی کتابیں پڑھنی چاہیئے)

تیسرا حصہ:طالب علم کو استاد کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ کار و آداب(مثلا اس کے مقام کو پہنچانا اگر وہ غلطی کر بیٹھے تو اصلاح کا طریقہ کار،اگر بدعتی یا عقیدہ درست نہیں تو کس طرح سے علم حاصل کرنا)
چوتھا حصہ:حصول علم کے دوران ساتھیوں سے کیسے معاملہ کرنا ہے اور ساتھیوں کا انتخاب کیسے کرنا ہے
پانچواں حصہ:طالب علم کی علمی زندگی کے دور میں اس کے اندر کیا کیا خاص خوبیاں ہونی چاہئیے مثلا سوال کرنے کا طریقہ کار،جھگڑا کئے بغیر مناظرہ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ

چھٹا حصہ:حصول علم کے مرحلہ میں عملی پہلوؤں کے حوالے سے کچھ نصیحتیں

ساتواں حصہ:ان تمام نواقض اور بری خصلتوں کا بیان جن سے ایک طالب علم کو بچنا چاہئے۔

یہ دینی و دنیوی علوم  دونوں قسم کے ظلبا  کے لئے یکساں مفید ہے۔مگر  دین کے طالب علموں کو یہ  ضرور پڑھنی چاہیئے کیونکہ بنیادی طورپر لکھی ہی ان کی راہنمائی کے لئے گئی ہے اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ شیخ صالح نے ہر موضوع پر مددگار کتابوں کے نام بھی بتائے ہیں اور اس میں محض طالبعلم کو راہنمائی نہیں دی گئی بلکہ ایک عام انسان کو بھی کامیاب ہونے کے لئے بہترین اصول اس  میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ ۔
اس کتاب کا انتخاب کیوں:
دور حاضر میں انٹرنیٹ کے آجانے سے علم کا حصول کافی آسان ہو گیا۔کتابیں اور لیکچرز بلا معاوضہ باآسانی مل جاتے ہیں جس سے یہ تو ہوا کہ علم بہت تیزی سے پھیلا ہر مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ  علم کے یوں تیزی سے پھیلنے سے معاشرے میں علم کے وہ ثمرات و برکات ظاہر نہیں ہوئے جو ہونے چاہیئے تھے اس کی ایک وجہ علم کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو اسلاف کا تھا کہ براہ راست استاد سے سیکھا جائے کیونکہ  تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے ورنہ وہی علم فتنوں کا باعث بھی بن سکتا ہے(اس نقطے کو شیخ صالح عثیمین نے بہت خوبصورتی سے واضح کیا)
اسلاف تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت حاصل کرنے اور آداب سیکھنے کا بھی بندوبست کرتے تھے جس کا اندازہ ان چند اقوال سے لگایا جا سکتا ہے۔

قال عمر رضي الله عنه : (( تعلموا العلم وتعلموا له السكينة والوقار))
حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا :علم حاصل کرو اور اس علم کو حاصل کرنے کے لئے سکون اور وقار بھی حٓاصل کرو(اپنے اندر یہ دو صفات پیدا کرو)


قال الإمام عبدالله بن المبارك رحمه الله : ( طلبت الأدب ثلاثين سنة , وطلبت العلم عشرين سنة , وكانوا يطلبون الأدب قبل العلم ).غاية النهاية في طبقات القراء 1/ 198.
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا ؛(میں نے تیس سال تک ادب سیکھا اور بیس سال تک علم حاصل کیا یعنی وہ لوگ علم حاصل کرنے سے پہلے ادب سیکھتے تھے۔

قال امام مالک رحمہ اللہ  لفتى من قريش : يا ابن أخي تعلم الأدب قبل أن تتعلم العلم
امام امام مالک رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ قریش کے ایک نوجوان سے کہا: اے میرے پیارے بھتیجے علم حاصل کرنے سے پہلے آداب سیکھو
 ۔
 یعنی ہمارے اسلاف علم حاصل کرنے کے آداب کو حصول علم سے زیادہ اہمیت دیتے تھے کیونکہ " باادب بانصیب بے ادب بے نصیب"۔آج علمی فتنوں کے پھیلنے میں  بڑا سبب بھی یہی ہے۔ اور شیخ صالح نے اپنی شرح میں ان سب فتنوں کی نشاندہی  کرنے کے ساتھ ساتھ  ان کے اسباب و حل کی طرف بہترین طریقے سے راہنمائی دی ہے۔
اس کتاب نے مجھے بے حد تک متاثر کیا ،بہت کچھ سیکھنے کو ملااس لئے دل میں خیال آیا کہ اس کو  عام کیا جائے اور باقیوں تک اس کی تعلیمات کو پہنچایا جائے لہذا میں مجبور ہوگئی کہ پہلے سے جن  کتابوں  پر کام کر رہی ہوں ان کو کچھ عرصہ کے لئے مؤخر کر کے پہلے اس کا ترجمہ کیا جائے


۔
یہ کتاب مجھے کیسے ملی:
 

حج کے موقع پر میں باقاعدگی سے حرم کی لائبریری جایا کرتی تھی ۔کتابوں سے علم حاصل کرنے کے علاوہ وہاں کے ماحول سے بہت کچھ سیکھنے کو ملاجب میں پہلی بار لائبریری گئی تو انٹری کرواتے ا
   کرواتے وقت لائبریرین نے میری نیشنلیٹی پوچھی

۔جب میں نے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں تو کافی حیرت اور تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا جس کا سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا (اول تو وہاں لائبریری میں کوئی آتا نہیں تھا اتنے دنوں میں شاید چار یا پانچ بار کچھ خواتیں دیکھیں ۔جن میں سے دو ،چار نے وہاں پر محض لائبریری کو اندر سے دیکھنے اور سیلفیاں لینے پر ہی اکتفا کیا یعنی بغیر کوئی کتاب کھولے اور پڑھے واپس۔۔گویا بحیثیت قوم ہمیں تفریح کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ کسی سنجیدہ ماحول میں ہو یا کسی بھی جگہ تفریح کے مواقع تلاش کئے جاتے ہیں۔۔)
ایک اور بات جس نے مجھے بہت کچھ سکھایا کہ میں وہاں لائبریری میں کبھی کبھار میں اکیلی خاتون ہوتی تھی باقی ڈیوٹی پر موجود لڑکے ہی ہوتے تھے۔پہلی بار جب مجھے وہاں اکیلے ہونے کا احساس ہوا تو واپس جانے کا فیصلہ کیا مگر کچھ دیر بعد محسوس ہوا کہ یہاں پر وہ پاکستانی کلچر نہیں جہاں اکیلی لڑکی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے( دو چار بار نظریں اٹھا کر اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائی مگر الحمد للہ ایسا کچھ نہیں تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے)حتیٰ کہ جتنی بار بھی کتابوں کے سلسلے میں گفتگو کی تو مکمل حیا اور جھکی نظروں کے ساتھ جوابات دیئے گئے   ۔
لائبریری میں جب اس کتاب پر میری نظر پڑی  تو عنوان بہت پسند آیا فہرست دیکھی تو لگا کہ شاید میں ایسی ہی کسی کتاب کی تلاش میں ہوں۔کتاب کو پڑھنا شروع کیا بہت اچھی لگی، خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔اگلے دن صبح ہوتے ہی اس کتاب کو خریدنے کے لئے بازار کا رخ کیا۔ حرم کے بالکل سامنے تین بڑے ہوٹل کلاک ٹاور،ہلٹن اور صفوۃ ٹاور ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں،ان تینوں عمارتوں میں سینکڑوں دوکانیں ہیں مگر افسوس کہ ان تینوں عماتوں میں کتابوں کی دکانوں کی تعداد چار یا پانچ تھی(قرآن کے مصحف اور سی ڈیز کے سٹالز تو بے شمار موجود ہیں)۔ ۔
دو دن کی تلاش کے بعد بھی کتاب نہ ملی  واپس آکر لائبریرین  سے بات کی انہوں نے مجھے وہاں کی یونیورسٹی میں جانے کا مشورہ دیا (اپنا مختصر تعارف کروایا  تو الحمدللہ مکمل راہنمائی کی کہ یونیورسٹی جانے کا کیا طریقہ کار ہے اور میں عربی میں ہی گفتگو کرتی تھی اس لئے آسانی ہو گئی)ہوٹل آکر گھر والوں سے بات کی جواب وہی ملا جس کا امکان تھا کہ ایسا ناممکن ہے اس لئے دوبارہ بات کرنے کے بجائے اللہ سے ڈھیر ساری دعا کے بعد دوبارہ تلاش شروع کردی  بالآخر ایک دوکان سے کتاب مل گئی ۔کتابوں کی خریداری میں میرا کافی وقت لگا کیونکہ فہرست پر سرسری نظر دوڑاتی۔۔۔۔اس دوران محسوس کیا کہ کوئی ایک بھی گاہک داخل نہیں ہوا  ۔یہ ہمارے شوق اور ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کہ اول تو سینکڑوں دوکانوں میں ایک دو دوکانیں کتابوں کی اور ان میں بھی خریدار نہ ہونے کے برابر۔۔ ظاہر ہے تاجر اپنی دوکان پر وہی چیز رکھے گا جو زیادہ فروخت ہو گی۔


ہمارے شوق ہی ہماری ترجیحات کو واضح کرتے ہیں ۔ہمارے دن کا زیادہ حصہ جن چیزوں میں گزرتا ہے  وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے دل ان ہی میں اٹکے ہوئے ہیں
افسوس کے ساتھ پورے لاہور میں اردو بازار کے علاوہ دینی و علمی کتب خریدنے کے لئے دوکانوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے

دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ ہماری زندگی میں دو ہی مقصد ہیں ۔کھانا پینا اور پہننا اوڑھنا۔بازار بھرے پڑے ہیں انہی دونوں چیزوں کی دوکانوں سے ۔ہر سڑک گلی محلہ میں کھانے پینے کی دوکانیں موجود ہیں


فوڈ سٹریٹوں اور کپڑوں کی ان دنیا نے ہمیں ایسا بنا دیا ہے کہ کھا پی رہے ہیں اور  چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔
جس کے بارے میں اللہ قرآن میں فرماتے ہیں۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ کھیل اور ایک دل لگی ہے اور بناؤ سنگھار ہے اور تمھارا آپس میں ایک دورے پر باہم فخر کرنا اور اموال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال بارش سے اگنے والی کھیتی کی طرح ہے جس نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا ،پھر وہ پک جاتی ہے پھر تو اسے دیکھتا ہے کہ زرد ہے پھر وہ چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں بہت سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بڑی بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں(الحدید:20
۔اللہ میری اس چھوٹی سی کاوش کو قبول فرمائے اور اس کو دنیا میں میرے لئے باعث برکت اور آخرت میں باعث نجات بنا دے۔آمین
سارہ اقبال