Tuesday, 7 March 2017

madah o tauseef





 کسی کی مدح و توصیف اسلام کی روشنی میں




کسی کی  تعریف کرنے کے  معاملے میں ہم لوگ افراط وتفریط کا شکار رہتے ہیں. 

 ہم اکثر مجموعی طور پرہی کسی بھی شخص کو اچھے یا برے ہونے کا ٹائٹل دیتے ہیں۔ بعض لوگ اتنے خود پسند ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے علاوہ دوسرے کسی انسان میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ کسی کی تعریف کرنے کے معاملے میں بخیل ہوتے ہیں۔ دوسروں کی معمولی خامیوں اور کوتاہیوں کو فورا نوٹ کر لیتے ہیں اور پھر ان کو خوب اچھالتے ہیں، لیکن ان کی خوبیوں اور اچھائیوں پر ان کی نظر نہیں پڑتیں اور ان کی زبانوں سے ان کے حق میں دو بول نہیں نکلتے۔
 اس کے برعکس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی تعریف و تحسین میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ وہ کسی کی تعریف کرنے پر آتے ہیں تو اس کے پل باندھتے چلے جاتے ہیں، خوشامد اور چاپلوسی ان کا شیوہ ہوتا ہے، متعلقہ شخص کے سامنے اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔

۔سوشل میڈیا پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ  ایک دوسرے کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے کسی نے اچھی تحریر ،آرٹیکل یا پوسٹ لکھی یا شیئر کیا تو  کمنٹس میں تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں۔ایسا کرنے سے اگلا شخص  اپنے آپ کو قابل تعریف سمجھنے لگتا ہے یا کسی کے خوبصورت کپڑے ،کھانا ،گھر ،گاڑی یا موبائل سے متاثر ہو کر لمبی لمبی تعریفیں کرنا وغیرہ باقاعدہ ایک رواج بن گیا ہے۔ اسلاف سے ان معاملات میں تعریف کرنے کے آثار بہت کم ملتے ہیں اور جو روایات ملتی ہیں وہاں بھی انداز بیان ایسا نہیں جیسا ہمارا ہوتا ہے۔
 بہت زیادہ تعریف دوسرے کو گمراہی اور بگاڑ میں مبتلا کرد یتی ہے ۔ ایسا شخص خود پسندی یا عجب کی بیمری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور عجب ایسی بیماری ہے کہ انسان کو ناکارہ کرنے کے لئے یہ تنہا ہی کافی ہے۔
جبکہ ایسا کرنا تو اجتماعی معاملات میں بھی خطرے سے خالی نہیں، اجتماعی معاملات مثلا شادی کاروبار یا کوئی بھی ایسا معاملہ ان میں تعریف کرنا ایسا ہے کہ گویا آپ کسی کی گارنٹی دے رہے ہیں اس لئے تعریف بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے۔

کسی کے سامنے تعریف کرنے کے حوالے سے شرعی حکم:۔
حضرت مقدادؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جہاں بھی دیکھتے تھے کہ کوئی شخص کسی کی مدح وتوصیف کر رہا ہے، فوراً اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے مدح کرنے والے کے چہرے پر مٹی پھینکنے لگتے تھے
عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ رَجُلًا جَعَلَ يَمْدَحُ عُثْمَانَ، فَعَمِدَ الْمِقْدَادُ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَكَانَ رَجُلًا ضَخْمًا، فَجَعَلَ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ الْحَصْبَاءَ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمِ التُّرَابَ» ۔
۔ ایک موقع پر ایک شخص نے حضرت عثمانؓ کے سامنے ان کی تعریف کی۔ حضرت مقدادؓ وہاں موجود تھے۔ انھوں نے اسے دے مارا اور اس پر چڑھ کر اس کے چہرے پر مٹی پھینکنے لگے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ارے، یہ کیا؟ انھوں نے فوراً اللہ کے رسول یہ ارشاد سنایا کہ: جب تم مبالغہ آمیز تعریفیں کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پرمٹی ڈال دو۔

اس کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو بولنے کا موقع ہی نہ دواور حقیقی طور پر مٹی ڈالی جائے چنانچہ حدیث کے راوی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
اس کا دوسرا مفہوم ناکامی ومحرومی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص تمھاری بے جا تعریف وتوصیف کرے تو اسے کچھ نہ دو، اسے اس کے مقصد میں ناکام بنا دو۔ یہ تعبیر عربی زبان میں کثرت سے آئی ہے۔ اور بعض دیگر احادیث میں بھی اختیار کی گئی ہے۔  محدثین نے اس کے بعض دیگر مفہوم بھی بیان کیے ہیں۔
تعریف کرنے پر لوگوں کے منہ میں مٹی ڈالنا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ہے مگر لوگوں کے شعوری و علمی کا حالات کا لحاظ کرتےہوئے ہمیں مختلف احادیث میں تطبیق کرنا ہو گی اس لئے ہم یہ نہیں کریں گے کہ جو کوئی تعریف کرے اس کے منہ میں مٹی ڈال دے  کیونکہ کسی بھی فعل کو کرنے کے لئے حکمت کا تقاضا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کسی بھی خاص فعل کو کرنے سے نتائج کیا برآمد ہوں گے  اور لوگوں پر اس  کے کیا اثرات ہوں گے
ابن عربی کی تطبیق یہ ہے کہ آپ منہ میں مت ڈالے لیکن اگر حکمت کے تقاضوں کو ملحوظ کرتے ہوئے آپ مٹی ہاتھ  میں لے کر اس کے آگے پھینک دیں۔
امام نووی کہتے ہیں :کہ انسان کی تعریف اس کی غیر موجودگی میں بھی کی جاتی ہے اور اس کے سامنے بھی۔اگر اس کی غیر موجودگی میں  کی جائے تو کوئی حرج نہیں مگر یہ کہ اس میں جھوٹ شامل نہ ہو

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُثْنِي عَلَى رَجُلٍ وَيُطْرِيهِ فِي مَدْحِهِ، فَقَالَ: «أَهْلَكْتُمْ - أَوْ قَطَعْتُمْ - ظَهَرَ الرَّجُلِ»
1؎ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی خوب بڑھا چڑھاکر تعریف کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :’’ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘ یا فرمایا کہ ’’ تم نے اس کی کمر توڑ دی۔(صحیح البخاری)

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص کا نبی کی مجلس میں ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تعریف میں اس نے یہ جملہ بھی کہا ’’اے اللہ کے رسول ، فلاں معاملے میں تو آپ کے بعد اس سے افضل کوئی دوسرا شخص نہیں ہے‘‘۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَيْحَكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ
(تمھارا برا ہو، تم نے اپنے ساتھی کی گردن مار دی۔ ) راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپؐ نے کئی بار دہرائی۔

عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ
حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تعریف کرنے میں مبالغہ سے بچو کیونکہ یہ ذبح کرنا ہے۔
(مسند احمد،سنن ابن ماجہ)

ذبح کرنے کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا کیونکہ جس طرح کسی کو قتل کرنے سے اس کی جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے اسی طرح سے کسی کی منہ پر تعریف کرنے سے اس کی روحانی اور اخلاقی موت واقع ہو جاتی ہے اس میں کئی خرابیاں ،نقصانات اور مسائل ہیں:

دلوں کو مردہ کردیتی ہے
جس شخص کی تعریف کی جاتی ہے وہ اپنے بارے میں دھوکہ کا شکار ہو جاتا ہے
 فخر اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہےاور اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے

اس لئے بعض اسلاف نے کہا ہے
اگر کوئی آپ کے ساتھ اچھا کرے اور وہ اس بات کو پسند کرتا ہو کہ اس کی تعریف کی جائے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کے درمیان خود کو نمایاں کرے تو اس کے اچھے فعل پر اس کی تعریف نہ کرو بلکہ اس کے بجائے اس کے لئے دعا کرو  جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاء
جب کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے( بھلائی کی جائے )تو وہ اس کے کرنے والے کو یہ کہے(دعا دے):اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

تعریف کرنے میں مبالغہ کرنا بھی منع ہے۔

اس لئے اگر کوئی کسی شرعی مصلحت و ضرورت کے تحت تعریف کرنا تو وہ اس طرح کے الفاظ کہے
مدح(تعریف) کا صحیح طریقہ: 

اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس کا صحیح طریقہ بھی بتایا ہے

مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لاَ مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلاَ أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَلِكَ مِنْهُ
جس شخص کو اپنے بھائی کی تعریف ہی کرنی ہو تو وہ یہ کہے: ’’اس کے بارے میں میرایہ خیال ہے۔ حقیقت حال سے تو اللہ ہی واقف ہے۔ میرا گمان یہ ہے۔  یہ کہہ کر وہ اس کے بارے میں وہی بات کہے جس سے واقف ہو۔‘(صحیح البخاری)
  
حضرت مطرّف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وفدِ بنوعامر کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ارکان وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے عرض کیا

’’اے اللہ کے رسولؐ آپ ہمارے سردار ہیں ‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ سردار تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہے‘‘۔ ان لوگوں نے پھر عرض کیا: ’’آپ ہم میں سب سے افضل اور سب سے زیادہ داد و دہش کرنے والے ہیں 

 آپؐ نے فرمایا
قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ
یہ باتیں کہو یا ان میں سے کچھ چھوڑدو، لیکن ہوشیار رہنا، کہیں شیطان تمھیں بہکا نہ دے۔(سنن ابی داؤد)

اس لئے اس طرح کے لیبل دینا بھی درست نہیں کہ فلاں بڑا متقی و عابد ہے،یا فلاں بڑا نمازی روزہ دار ہے بلکہ اس کے متبادل جملے بولے جائیں کہ میں نے اس کو نماز روزہ وغیرہ تاکید کے ساتھ ادا کرتے دیکھا ہے  اور ساتھ میں یہ ضرور کہا جائے کہ غیب کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔
اس شخص کے منہ پر اس کی تعریف نہ کی جائے جس کے بارے میں اندیشہ ہو کہ اپنی تعریف سن کر گھمنڈ میں مبتلا ہوجائے گا۔
 رہا وہ شخص جس کے کمالِ تقویٰ، پختگی عقل اور علم ومعرفت کی بنا پر فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو( عموما ایسا بہت کم ہوتا ہے)، اس کے منہ پر تعریف کی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ محض اٹکل سے اس کے اوصاف نہ بیان کیے جائیں بلکہ اگر ان اوصاف کے تذکرے میں کوئی مصلحت ہو:

مثلاً وہ شخص اعمالِ خیر کے لیے مزید سرگرم ہوجائے یا انھیں پابندی سے انجام دینے لگے یا

 دوسرے لوگوں میں اس کے مثل کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو تو اس صورت میں اس کی تعریف وتوصیف کرنا مستحب ہوگا

نیت نہ خراب کردے

حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ہو

تعریف نہ کئے جانے پر عمل نہ ترک کر دے

اس کے مقام کے لحاظ سے ہو

مبالغہ سے کام نہ لیا جائے

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا

لا تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ
میرے بارے میں اس طرح مبالغہ سے کام نہ لو جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں انتہائی مبالغہ کیا۔ میں بندہ ہوں، مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔(صحیح البخاری)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر معاملے میں میانہ روی اپنانے اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کوسمجھنے و اپنانے اور صحابہ کے طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
تحریر
سارہ اقبال

۔

۔
 

Friday, 3 February 2017

discipline-1






 How TO Discipline Your Child

گھر اور سکول میں بچوں کو ڈسپلن کرنے کی کچھ ٹیکنیکس ہیں اس ضمن میں بچوں کی نفسیات کے بارے میں جتنا زیادہ علم اور سمجھ ہوگی اتنی زیادہ آسانی ہوگی ان میں سے چند ایک کو بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھا گیا ہے۔
اپنے طلبا،بچوں کے احساسات اور ضروریات کو سمجھیں اور اپنے احساسات اور ضروریات ان کو بیان کریں۔
اپنی کلاس کو دعوت دیں کہ وہ درپیش آنے والے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنے دماغ لڑائیں اور سوچیں مثلا بعض اوقات آپ کلاس میں کوئی سوال پوچھتے ہیں تو سب ایک ساتھ جواب دینا شروع کر دیتے ہیں اور یوں کلاس میں ایک شوروہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔
اس صورت میں بچوں سے سب سے پہلے اس کا سبب جانیں
 پھر اس سب کے نتیجہ میں اپنے احساسات بیان کریں کہ آپ کیا محسوس کرتی ہیں اور اس سب کی وجہ سے کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے 
پھر اس مسئلے کا حل پوچھیں اور اس کے لئے ان کی تجاویز لیں۔
 اس کے بعد اس میں سے بہترین کا انتخاب کرکے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔۔
مثلا اپنے احساس میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یوں جب آپ لوگ جواب دیتے ہیں تو مجھے کسی کی بھی بات سمجھ نہیں آتی،شور ہوتا ہے آپس میں جھگڑا بھی  ہوتا ہے۔۔۔۔(مسئلے کے حل  کے لئے بچوں سے تجاویز لیں)پھر اصول بنا لیں کہ جس کو جواب دینا ہے وہ ہاتھ کھڑا کرے گا اب آپ کو اس کی پانبدی یقینی بنانی ہے کہ صرف اسی بچے سے جواب لیا جائے جو ہاتھ کھڑا کرکے صبر سے اپنی باری کا انتظار کرے اس سے ہی جواب پوچھا جائے ۔۔
کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے جو بھی حتمی تجاویز طے ہو یا کوئی بھی اصول بنائیں تو ان کو خوبصورت انداز میں لکھ کر گھر ،کلاس روم میں لگا لیں کیونکہ بچوں کو بار بار یاددہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
نوٹ:(بچے کی ضروریات اور احساسات کو ضرور سمجھیں)

تعریف اور تنقید:

بچوں کی خوبی کا تعین نہ کریں(یعنی کوئی بھی لیبل نہ لگائیں) بلکہ خوبی کو واضح کریں ۔مثلا اگر بچہ کوئی ڈرائنگ بنا کر لائے تو اس کو یہ کہہ دینا کہ تم بہت زبردست پینٹر ہو یا بڑی زبردست ڈرائنگ کرتے ہو اس کے بجائے جو تصویر وہ بنا کر لایا ہے اس پر غور کرکے اس میں مثبت اور قابل تعریف پہلو تلاش کریں کہ اس میں رنگ بہت اچھے بھرے ہیں یا اس میں پہاڑ بہت خوبصورت بنائے ہیں ،کام بہت صفائی سے کیا ہے۔۔۔  جب آپ یوں اس کے کام کو سراہیں گے تو بچے کو بھی اپنے ہوئے کام پر تنقید اور اصلاحی پہلوؤں کو سننے کا حوصلہ ملے گا۔ورنہ کسی بھی اچھے کام کو کرنے پر اس کام میں پائے جانے والی خوبیوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی نشاندہی کرنے کے بجائے آپ اس بچے یا پورے کام کو ہی اچھا قرار دیں گے تو بچہ خود کو بھی پرفیکٹ سمجھنے لگے گا مزیدسیکھنے اور محنت کرنے پر توجہ نہیں دے گا اور آئندہ نہ تو تنقید برداشت کرسکے گا اور نہ ہی بآسانی غلطی تسلیم کرپائے گا۔  ۔
بہت زیادہ تعریف مت کریں ورنہ بچے تعریف سننے کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر اسی کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ بعض اوقات بہت زیادہ تعریف بچوں کو چڑچڑا بنا دیتی ہے۔

 ۔
غلطی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے آغاز اس کام سے کیا جائے جو بچوں نے کیا ہے ۔پھر جو کام ہونا چاہیئے تھا اس کے بارے میں بعد میں بات کریں تو بچوں کو اپنی اصلاح کرنے میں مدد ملتی ہے۔مثلا یہ کہنا کہ آپ نے فلاں فلاں کام تو کر لیا ہے اب دیکھو کیا کیا رہتا ہے۔۔


بچوں کے لئے سیکھنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ پوری توجہ کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر وہ اس فکر میں ہو کہ ان کا کام کیسا ہے اور دوسرے کیا رائے دیں گے تو پھر سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔
اگر ایک سے زیادہ بچوں کو آپ نے کلاس میں ایک ہی کام دیا ہے یا بہن بھائیوں میں ۔تو کسی بچے کی اچھی کارکردگی پر یا جلدی کام کرلینے پر اس بچے کا نام لے کر اس کی تعریف کرنے کے بجائے اس کے کام کی تعریف کی جائے مثلا آپ نے کوئی سوال دیا تھا حل کرنے کو،اب  ایک بچے نے بہت اچھی ظرح سے اس کو حل کیا اور ساری ہدایات پر عمل کیا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس کے جواب کو اپنے ہاتھ میں لے کر سب بچوں کو وہ جواب دکھایا جائے اور قابل تعریف پہلوؤں کا ذکر کرکے حوصلہ افزائی کی جائے۔
 ایسا کرنے کی کئی وجوہات ہیں
جس بچے نے محنت کرکے جواب آپ کو لکھ کر دیا اس کو معلوم ہو گیا کہ میرے اس جواب کو سراہا گیا اور اس کے لاشعور میں بیٹھ جائے گا کہ مجھے اس کام کی وجہ سے تعریف سننے کا موقع ملا ہے اور میرا قابل تعریف پہلو یہ ہے۔

اگر آپ کام کی وضاحت نہیں کریں گے اور محض بچے کی تعریف کریں گے تو اس طرح سے باقی بچوں کے دلوں میں اس بچے کے لئے حسد پیدا ہوتا ہے  اور خواہ مخواہ کلاس میں منفی مقابلے کا ماحول اور ایک دوسرے کے لئے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔اور باقی بچے اس بچے کی ہر چیز سے اپنی چیزوں کا موازنہ کرنے لگتے ہیں ۔۔

آپ بچوں کو جو بنانا چاہ رہے ہیں یا جیسا ماحول دینا چاہ رہے ہیں اس کی آئیڈیل صورتحال یا مثال ان کے سامنے ضرور پیش کریں  تاکہ بچوں کے ذہن میں ایک واضح نقشہ ہو کہ ہمیں ایسا بننا یا یہ کرنا ہے۔

مثلا جب مجھے کلاس میں کسی اہم سبق کا آغاز کرنا ہو تو تھوڑی سی موضوع سے ہٹ کر اس انداز میں بات کرتی ہوں کہ صحابہ کرام کا تعارف ان کی رسول اللہ ﷺ سے محبت ،کی مجلس میں بیٹھنے اورسیکھنے کا انداز اور اس کے لئے ایک بہترین مثال کہ وہ پیارے رسول اللہ  ﷺ کی بات اتنے غور و ادب سے سنتے تھے کہ  ان کےسروں پر پرندے بیٹھ جاتے تھے(اور اس کی مکمل وضاحت کہ کیوں ایسے بیٹھتے تھے یا پرندے کیسے بیٹھ جاتے تھے)۔۔۔اس طرح ایک مثال سے ان کو واضح کرکے کلاس میں ڈسپلن قائم کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی ہے کیونکہ جب تک ہم مثال پیش نہیں کرتے بچے کو محض یہ کہتے چلے جانا بیکار ہے کہ ڈسپلن کا مظاہرہ کرو یا آرام سے بیٹھو۔۔

 ۔اس طرح سے اگر کوئی بچہ باقی بچوں کے مقابلے میں آپ کی بات کو زیادہ اچھے طریقے سے مان رہا ہے تو بغیر اس کا نام لئے اس کے قابل تعریف پہلو کا تذکرہ اس انداز میں کرنا باقی بچوں  کی اصلاح میں بھی مددگار ہو گا مثلا کہ مجھے اس وقت ایسا بچہ اچھا لگ رہا ہے اور میرے دل سے اس بچے کے لئے دعائیں نکل رہی ہیں جو اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا توجہ سے میری بات سن رہا ہے۔(اس کے بعد بچے خود ادھر ادھر دیکھیں گے کہ کون ہے اور کس کی تعریف کی جا رہی ہے اور خود کو اس درجہ پر لے جانے کی کوشش کریں گے)
اپنے احساسات بیان کریں۔

بچوں کو طنز کرنے ،مجرم ٹھرانے اور حکم دینے اور تقریر کرنے کے بجائے ان سے اپنے احساسات بیان کریں اور مسئلہ بیان کریں (ان کی اس غلط حرکت 
کے نتیجے میں ملنے والی پریشانی اور احاس بیان کریں 
) ایک مثال کہ بچے اکثر ٹیسٹ پر یا ورک شیٹ پر اپنا نام لکھنا بھول جاتے ہیں اس پر یہ طعنہ دینا کہ یہ کون عقل مند جس نے نام نہیں لکھا۔۔۔یا بعض اوقات کلاس کے فرنیچر اور دیواروں پر لکھتے ہیں تو یہ کہنا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ یہاں لکھو۔۔۔۔اس کے بجائے(یاددہانی کے طور پر معلومات دیں)ڈیسک لکھنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے کاغذ ہوتا ہے اور اگر فرنیچر یوں خراب ہو جائے تو بدنما لگتا ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا۔۔۔یا بچے اگر فرش پر پانی یا کچھ بھی گرا دیں تو کسی بھی قسم کے غلط جملے بولنے کے بجائے صرف یہ کہا جائے کہ اب تو یہاں پر فرش گندا ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی پھسل بھی سکتا ہے(یعنی بچوں کے شعور کو جگانا ہے ان کی اس حرکت کے نتائج پر ان کی توجہ دلانا مقصود ہو)تو بچہ فورا اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
 ۔
اسی طرح سے بچے اکثر کپڑوں سے بہت چمٹتے ہیں اور کھینچتے ہیں یا پیچھے سے لٹکتے ہیں اس پر ڈانٹنے اور جھڑکنے سے بہتر ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ بیٹا جب ایسا کرتے ہو تو میری کمر ۔۔۔۔یا جو بھی مشکل۔۔
 (اس ضمن میں یہ یاد رہے کہ کچھ رویے نارمل ہوتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں اس لئے عمر کے حساب سے عمومی رویوں کو علم ہونا ضروری ہے ورنہ یہ چیز آپ کے بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے) مثلا  کسی نئے بندے سے ملنے اور سلام لینے کے بجائے بچے اپنے والدین کے ساتھ چمٹتے اور کپڑے پکڑ کر پیچھے چھپتے ہیں تو یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ حیا اور عدم تحفظ  کا احساس غالب ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرتے ہیں اس صورت میں ڈانٹنے کے بجائے آپ بغیر کچھ کہے ان کا ہاتھ خود پکڑ کر ملوا دے) یا ایک اور مثال ڈیڑھ سے پانچ سال کی عمر کا بچہ پنسل ،بال پوائنٹ پکڑ کرپردوں کے پیچھے چھپ کر دیواروں یا مختلف جگہوں پر لکھتے ہیں یہ ایک فطری چیز ہے ایسا کرنے پر آپ جتنا بھی ڈانٹیں یا ماریں گی بے سود ہو گا بہترین حل یہ ہے گھر کی ایک دو دیواروں پر بڑے بڑے چارٹ پیپر لگا کر ان کو مخصوص حصہ دیا جائے تاکہ وہ اس پر آزادی سے لکھ سکیں اور ہر بار یاد دہانی کروائی جائے کہ لکھنے کے لئے تو کاغذ ہوتا ہے  ۔۔اسی طرح سے ایک اور صورت حال سے سب کو سامنا کرنا پڑتا ہے کہ دو سے چھ ،سات سال تک کا بچہ ہر کام کو خود کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس وقت بچے کے اندر ایسے ہارمون پیدا ہوتے ہیں جو اس کو شدت سے اس بات کی ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ ہر وہ کام کرے جو بڑے کرتے ہیں اسی لئے اس عمر کے بچے ایک ہی جملہ بولتے نظر آتے ہیں میں خود کروں گی یا میں خود کروں گی تو ان کو اس کام سے روکے مت بلکہ ان کی عمر کے لحاظ سے ان کو اس کام کو کرنے میں مدد دیں۔۔

 بچوں سے کبھی بھی لمبی بحث نہ کریں
 کیونکہ آپ استاد یا ماں ہے ،یہ دونوں مقامات ہی ادب کے قابل ہیں آپ کے لمبی لمبی دلائل و بحث ان کے دل میں موجود  آپ کا لحاظ ختم کر دیں گے اپنے آپ کو کبھی بھی اس مقام سے نیچے مت لائیں اس لئے ان حدود کا خاص خیال رکھیں اگر بچہ بات کو طول دے بھی تو اپنا مؤقف وقار کے ساتھ بیان کر کے خاموش ہو جائیں۔
بعض اوقات لمبی بات کرنے کے بجائے محض ایک لفظ میں یا اشارہ سے بات کریں  اس سے 
 بچے کی ذہانت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو ماحول سے سیکھنا آجائے گا
  لمبی لمبی تقریروں اور وضاحتوں سے بعض اوقات اکتا جاتے ہیں محض ایک لفظ یا اشارہ انہیں مطلوبہ کام کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ۔مثلا آپ نے کوئی سوال پوچھا ہے اور سب لوگ ایک ساتھ بول پڑے ہیں تو اس صورت میں یاددہانی کے انداز میں اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کی یاددہانی کروائی جاسکتی ہے۔۔یا بچے سردیوں میں گھر سے باہر جاتے وقت سویٹر نہیں پہنتے تو لمبی بات کرنے کے بجائے یاددہانی کے انداز میں بس اتنا کہہ دینا بھی کافی ہوگا کہ ـ(بیٹا سویٹر)نوٹ:یہ اس صورت میں فائدہ دے گا اگر آپ اس بارے میں پہلے نتائج اور سبب پر بات کر چکے ہیں۔
جیسا رویہ آپ پسند کرتے ہیں اس کا نمونہ بنیں: 
۔اس اصول کو نہ صرف بڑے بڑے معاملوں میں اپنائیں بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اس بات کا خیال رکھیں ورنہ آپ کی باتیں بے اثر ہو جائیں گی مثلا کلاس میں بچے شور کر رہے ہو تو آپ کا چیخ کر کہنا کہ سب خاموش ہو جائیں وقتی طور پر خاموش تو کروادے گا مگر بچے نے آپ کے اس ردعمل سے کچھ بھی مثبت نہیں سیکھا ۔
جاری ہے۔۔ ۔

۔
۔