یہ جنوری 5 ,2017 نوائے وقت اخبار کی خبر ہے
نوجوان نسل میں بڑھتے منفی رحجانات اور ان کا حل
خالی یہ ایک خبر نہیں یہ ہمارے تعلیمی اداروں کی
خوفناک صورتحال ہے۔آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں چھپتی رہتی ہیں کسی دن یونیورسٹی
کی طالبہ کی شادی سے انکار پر خودکشی کی خبر تو کسی دن سکولوں،کالجوں اور
یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کی منشیات میں مبتلا ہونے کی رپورٹ تو کبھی فحاشی و
عریانی کے پھیل جانے سے زنا و ہم جنس پرستی جیسے واقعات کی دل ہلا دینے والی خبریں
ہوتی ہیں۔المیہ تو یہ ہے کہ یہ چیزیں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ اخبارات روزانہ کی
بنیادوں پر ایسی خبریں اور رپورٹیں دینا
شروع ہوگئے ہیں
ہمارا معاشرہ اس وقت
بڑی تہذیبی و ثقافتی انقلاب سے گزر رہا ہے اس وقت اس کا رخ مغربی تہذیب کی طرف ہے اور ہم سر پٹ
اس کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ۔کل تک جوگفتگو، رویہ،لبا س اور جو انداز حرام سمجھے
جاتے تھے اب وہ ہماری تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں۔کل تک جو حرکت یا عادات دیکھ کر والدین
کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی تھیں اور وہ معاشرے میں ان کی وجہ سے بے عزتی محسوس کرتے تھے اب ان حرکات اور طریقوں کو عام
ہوجانے پر قبول کیا گیا اور بعض اوقات فخر سے اپنے بچوں کی ان حرکات کا تذکرہ کیا جاتا
ہے۔سوشل میڈیا نے تمام حدیں توڑ ڈالیں ہیں۔
دور حاضر میں نوجوان نسل اپنے آپ کو ماں باپ اور بزرگوں
سے الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ان کا تعلق ماں باپ سے صرف مالی فائدہ اٹھانے
کی حد تک ہے وہ چاپلوسی سے یا پھر زبردستی وصول کرلیتے ہیں اور فضول یا حرام کاموں
پر اڑا دیتے ہیں۔ مگر افسوس ہمیں یہ سب تشویش میں مبتلا نہیں کرتی کیونکہ ہم اس بات
سے تسلی میں آجاتے ہیں کہ سارے ہی تو یہ کر رہے ہیں
ہم میں سے کوئی بھی
یہ نہیں چاہتا کہ ہمارے بچے ان برائیوں کی لپیٹ میں آئیں مگر ان برائیوں سے بچانے
کے لئے ہم نے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے یا اگر کئے بھی تو وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔افسوس کے
ساتھ اس نوبت تک پہنچانے والے سارے اسباب
موجود ہیں جن میں سے بیشتر ہم نے خود فراہم کئے ہیں اور وہ سب ہمیں تشویش میں مبتلا نہیں کرتے چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہو
راتون کو دیر تک رکنا ہو،ریسٹورنٹ کلچر ،نیم عریاں اور غیر ساتر لباس میں
نکلنا،ڈھیروں ڈھیر پاکٹ منی،موبائل فون اور دوسرے ڈیوائسز کا بلا روک ٹوک استعمال۔۔۔
وغیرہ جہاں پر
برائی کو کرنے اور اس تک رسائی ایک بٹن دبانے سے حاصل ہو جاتی ہے ۔مگر یہ سب چیزیں
فکر ہمیں مبتلا نہیں کرتیں۔
۔ہم نے سمجھا کہ محض
ناظرہ قرآن پڑھا کرمہنگے سکولوں میں داخل
کروانے سے بہترین تعلیم و تربیت حاصل ہو گی اس لئے والدین نے اپنی اس ذمہ داری کو سکول
کے کھاتہ میں ڈال کر تعلیم و تربیت اور باقی فرائض سے چھٹی کر لی اور یہ سمجھا کہ
بڑا ہوگیا تو ذمہ داری ختم حالانکہ جیسے جیسے عمر میں بڑے ہوتے ہیں والدین کی ذمہ
داریاں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور ان کی فکروں میں بھی اضافہ ہونا چاہیئے مگر ہم نے زندگی
میں سکون اور خوشیوں کے لئے مال و دولت کو واحد سبب سمجھ کر اس کے حصول میں ہی تمام
تر وقت اور صلاحیتیں لگا دی گئیں،۔زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے چکر میں حلال کے
ساتھ ساتھ حرام کی آمیزش میں بھی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔ ۔
ہم نے معلومات اور
ایجادات کا ذخیرہ تو جمع کر لیا مگر مذہب کی را ہنمائی اور اس کی تربیت سے محروم ہو
کر ضمیر،اخلاقی احساس اور ضبط نفس کی دولت سے محروم ہو گئے
مذہبی راہنمائی کے بغیر یہ ساری تعلیم بیکار نہیں بلکہ وبال جان ثابت ہو رہی ہے ہمیں دوہرا نقصان یہ
ہوا کہ انسان اخلاقی حیثیت سے گر گیا اور دوسرا
یہ کہ وسائل یا تو حقیر مقاصد میں ضائع ہو رہے ہیں
انسان کی
ہی بربادی کا ذریعہ بن رہے ہیں یا
جب یہ مرض کسی قوم کو لگ جاتا ہےتو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کہ قتل و غارت اور
باقی جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے دوسرے کا نقصان کیا جاتا
ہے ۔
اللہ کا قانون ہے
کہ جو چیز جہاں کھوئی ہے وہیں ملے گی۔ہمیں معلوم ہو جانا چاہئے کہ ہمارا مرض ہمارے اندر ہے اور ہمارا علاج بھی ہمارے اندر ہے۔جس
چیز کو ہم باہر تلاش کرتے پھرتے ہیں وہ ہمارے اندر ہے۔یہ وہی قصہ ہے کہ کسی کی کوئی
چیز گم ہوگئی تھی گھر کے اندر اور وہ باہر اس کو تلاش کر رہا تھا،کسی نے کہا وہ چیز
گری کہاں تھی ؟اس نے کہا گھر کے اندر۔تو کہا کہ اندر کیوں نہیں تلاش کرتے؟کہنے لگا
،گھر کے اندر روشنی نہیں۔روشنی باہر ہے اس لئے جہاں روشنی ہے میں وہاں تلاش کر رہا
ہوں۔ٓاج ہم بھی یہی کر رہے ہیں کہ اپنے مسائل کا حل وہاں تلاش کر رہے ہیں اور وہاں
سے خیر اور کامیابی و سکون کی توقع کر رہے ہیں جہاں موجود ہی نہیں اور نہ ہی وہ
سبب ہے خیر وسکون کا۔
۱: اب کوئی تیسرا علاج
نہیں علاج صرف یہی ہے کہ رسول اللہ کا دامن
پکڑا جائے اور دنیا کی کتابوں کو جس دلچسپی ،محنت اور لگن سے پڑھا اور رٹا جاتا ہے
اس سے بڑھ کر کتاب اللہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں اپنی توانائیوں کو لگایا
جائےْ۔ایک بیمار انسان جس احتیاط اور مکمل
توجہ کے ساتھ ڈاکٹر کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کرتا ہے کیونکہ اس حوالے سے ذرا سی غفلت اور لا پرواہی اس کو نقصان
سے دوچار کر سکتی ہے اس سے بڑھ کر ہمیں اس قرآن کو تھامنے کی ضرورت ہے۔
۲:سب سے پہلے ہمیں
خود کو قرآن سے جوڑنا ہے ۔حلال اور حرام کی فکر کرنی ہے جس گھر میں نماز روزہ حج
سے آگے بڑھ کر دین پر عمل ہو اور ہر معاملے میں بچے اپنے والدین کو معاملہ کرتے
ہوئے حلال حرام کے حوالے سے فکر مند نظر آئیں گے وہاں پر یہ شعورلازمی طور پر
اولاد میں منتقل ہو گا۔کونکہ ہم میں سے ہر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اولاد
نیک اور فرمانبدار ہو لیکن صرف خواہش سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس کے
لئے خود بھی نیک اور صالح بننا پڑتا ہے۔ جس کی اچند ایک مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ـ
عبداللہ بن مسعودؓ
جب رات میں نوافل ادا کر رہے ہوتے تو سامنے اپنے چھوٹے بچے کو سویا ہوا دیکھ کر کہاکرتے
تھے "من اجلک یا بنی،، یہ تیرے روشن مستبقل کے لئے ہے اور روتے ہوئے ( وَكَانَ
أَبُوهُمَا صَالِحًا ) کی تلاوت کرتے۔
سعيد بن مسيّب
رحمہ اللہ كا بهي يہي حال تها، فرماتے :
اني لأصلي فأذكر ولدي
فأزيد في صلاتي.
نماز پڑھتے ہوئے جب
مجھے اپنے بچے یاد آتے ہیں تو نماز لمبی کر دیتا ہوں۔
سورہ کہف کے میں مذکور واقعے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ باپ اگر نیک
ہو تو اس کا فائدہ اس کی اولاد کو بھی ہوتا ہے۔
۳:اپنی اولاد کے
دل میں اللہ کا خوف، اس کی مکمل معرفت و پہچان اور آخرت میں جوابدہی کا خوف یقین کی حد تک بٹھایا جائے کیونکہ کسی چیز کا
محض علم ہونے اور اس پر یقین ہونے میں بہت فرق ہے یقین وہ دولت ہے جو کسی بھی چیز
پر ہو تو اس کے مطابق انسان کو عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ کی عمل پر آمادہ کرنے کے
لئے محض سطحی علم ناکافی ہے اور دور حاضر
میں جس کثرت سے فتنے موجود ہیں یہی وہ واحد چیز ہے جو انسان کو حرام کاموں میں
مبتلا ہونے سے روک سکتی ہے اس لئے اللہ اور آخرت پر ایمان اور آخرت کے جزا و سزا
پر ایمان یقین کی حد تک ضروری ہے۔
۴:اگر بچوں کو
برائی اور بے حیائی سے بچانا ہے تو شریعت کی دی ہوئی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے جس میں بالغ ہونے سے پہلے محض چند ایک چیزوں کی تاکید
کی ہے اگر ان کا ہی مکمل اہتمام کیا جائے تو بہت سے برائیوں کا سدباب ممکن ہے
جن میں سے
تاکیدا ایک بستر الگ کرنا اور دوسرا نماز
کی عادت ڈالنے کا حکم ہے۔نماز ایک ایسی چیز ہے جس ایک عمل کی بدولت انسان کی
بہترین تربیت ہوسکتی ہے۔نماز پڑھنے کی عادت ہوگی تو بچے کو طہارت اور وضو وغیرہ کے
بارے میں بنیادی تصور واضح ہوگا۔نماز پڑھنے کا عادی بنائیں گے تو کچھ نہ کچھ قرآن
بھی اس کے لئے سیکھنا اور یاد کرنا پڑے گا۔نماز کے چند بنیادی مسائل کو بھی جاننا
پڑے گا۔ نماز ہی کے بارے میں قرآن میں آتا ہے
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ
اور نماز قائم
کرو بیشک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے
یعنی اللہ سبحانہ
و تعالیٰ خود آگاہ کر رہے ہیں کہ نماز کی پانبدی کرو کیونکہ یہ بہت سی بری باتوں
اور برائیوں سے لاشعوری طور پر روک دیتی ہے۔
بستر الگ کرنے سے
بچے کے اندر حیا کے پہلوؤں اور تصورات کو باآسانی واضح کیا جا سکتا ہے ۔
۵:زندگی اور موت
کا تصور ان کے ذہنوں میں واضح کیا جائے۔زندگی کے مقصد کو واضح کیا جائے کہ ہم اس
دنیا میں کیا کرنے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں نوجوان نسل کے ذہن میں
زندگی کے متعلق ایک ہی تصور دیا گیا ہے اور وہ ہے تفریح کا حصول آج کا نوجوان ہر
چیز میں انٹرٹنیمنٹ کے پہلو کو تلاش کرتا ہے گویا زندگی کا واحد مقصد ہی یہے ہے کہ
کھاؤ پیو موج اڑاؤ،چار دن کی زندگی ہے جیسے چاہو جیو(اس قسم کے اور بہت سے سلوگنز
عام کئے گئے ہیں)۔ اس کے ثبوت میں یہ اخباری رپورٹ ہی کافی ہے کیونکہ اتنی بڑی
تعداد میں طلبا کا منشیات استعمال کرنا اس
لئے نہیں کہ خدانخواستہ زندگی میں کوئی بہت سے غم لاحق ہو گئے ہیں جن کو دور کرنے
کے لئے منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ یہ محض تفریح کے طور پر اور دیکھا
دیکھی اندھا دھند مغرب کی تقلید میں ہو رہا ہے ۔اور منشیات کا استعمال ساتھ میں
اور کون کون سی برائیاں لاتا ہے اور کیسے حیا کے دامن تار تار ہوتے ہیں اس سے سب
خوب واقف ہیں ۔
۔
۶:حلال اور حرام کی
مکمل پہچان بلوغت سے پہلے ضروری ہے کیونکہ بالغ ہوتے ہی وہ شریعت کے مکلف ہوجاتے
ہیں۔بالغ ہونے سے پہلے ہی مکمل قرآن کا ترجمہ فہم کے ساتھ ان کو سکھایا جائے مگر
افسوس ہمارے ہاں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اس کے برعکس سکول کے ایک سال کی
سلیبس کی موٹی موٹی ڈھیروں کتابیں رٹا دی جاتی ہیں اگر نہیں توجہ اور وقت تو صرف
اس کتاب کے لئے حالانکہ یہ وہ کتاب ہے جو عام فہم اور ہو
وقت قابل عمل ہے۔جو ایک غریب،ایک دولت مند،ایک کمزور،ایک طاقتور،ایک تاجر،ایک حاکم
کو،ایک بھائی ،ایک بیٹے اور ایک شوہر کو مکمل راہنمائی دے سکتی ہے اور برائیوں سے بچا کر
راہ راست پر لا سکتی ہے۔
۷:ماؤں کی اگر
واحد فکر یہ ہو کہ میں نے اپنے بچوں کو حرام سے بچانا ہے اور دن بھر کی غالب سوچ
ہی یہی ہو کہ ان کی آخرت کو کیسے بچانا ہے تو اللہ مدد کرتا ہے اور خود ہی راستے
نکال دیتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس کے لئے سچی تڑپ اور لگن ہونی چاہیئے۔اس کے لئے
ڈھیروں محنت اور قربانیاں (اپنے دنیوی شوق،وقت اور آرام کی) قربانیاں دینا ہو گی
اس کی مثال میں
امام احمد رحمہ اللہ کا واقعہ نقل کروں گی
امام احمد بن
حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں دس سال کا تھا میری والدہ نے مجھے قرآن حفظ
کروایا۔مجھے فجر سے پہلے بیدار کرتی اور سردی کی وجہ سے میرے وضو وغیرہ کے لئے
پانی گرم کرتی پھر اللہ ہمیں جتنی توفیق
دیتا ہم نماز(تہجد) ادا کرتے۔پھر ہم دونوں مسجد جاتے تاکہ فجر کی نماز ادا کریں پھر جب میں سولہ سال کا
ہوا میری والدہ نے مجھے کہا:
یا بنی سافر لطلب
الحدیث ؛فان طلبہ ھجرۃ فی سبیل اللہ
اے میرے پیارے
بیٹے حدیث کا علم سیکھنے کے لئے سفر کرو(نکلو) کیونکہ اس کا سیکھنا اللہ کی راہ
میں ہجرت کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ
کیا اس وقت کا ہر بچہ امام اور محدث ہوتا تھا؟؟؟نہیں ۔بگاڑ اور فتنے اس وقت بھی
موجود تھے۔مگر ان کی ماں کی انتھک محنت اور قربانی کا کیا زبردست نتیجہ نکلا کہ
امام احمد وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں آتا ہے کہ ابوبکرؓ کے بعد اس امت پر سب سے
بڑا احسان امام احمد کا ہے۔
کیا میں اور آپ
اپنے بچوں کی آخرت بچانے کے لئے ایسی محنت کر رہے ہیں؟؟؟ کہ امام محدث نہ سہی مگر
حلال حرام کی فکر رکھنے والا باعمل مسلمان بنانا ضروری ہے کیونکہ یہ وہ پرچے ہیں
جو اللہ نے ہمارے ہاتھوں میں دیئے ہیں اور ہم سے ان کے متعلق قیامت کے دن سوال ہو
گا۔۔اس لئے اس بارے میں سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
۸:ہم ان کی دنیوی
تعلیم کے لئے جن تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں وہاں کا ماحول اور بچے کی شخصیت
اور اس کے ایمان پر اثرات کو ترجیح دینے کے بجائے اس کو پس پشت ڈال کر محض
تعلیمی معیار کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ہم
دنیا کا ذرا بھی نقصان برداشت نہیں کرتے اور نہ ہی اس دوڑ میں پیچھے رہنا گنوارہ ہے ۔اس کے بارے میں
قرآن میں آتا ہے
۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا
الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ
فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ
يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ
وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ
الْغُرُورِ
جان لو کہ دنیا کی
زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ کھیل اور ایک دل لگی ہے اور بناؤ سنگھار ہے اور تمھارا
آپس میں ایک دورے پر باہم فخر کرنا اور اموال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی
کوشش کرنا ہے اس کی مثال بارش سے اگنے والی کھیتی کی طرح ہے جس نے کاشت کاروں کو خوش
کر دیا ،پھر وہ پک جاتی ہے پھر تو اسے دیکھتا ہے کہ زرد ہے پھر وہ چورا ہو جاتی ہے
اور آخرت میں بہت سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بڑی بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا
کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں(الحدید:20)
۹:بچوں کو دینی
ماحول فراہم کیا جائے ،ان کی صحبت کے بارے
میں فکر مند ہوإ جائے کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں کیونکہ صحبت کا اثر
لازمی طور پر آتا ہے چاہے کسی کا کتنا ہی مضبوط ایمان کیوں نہ ہو لازمی طور پر
متاثر ہوتا ہے جیسا کہ حدیث رسول میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمَرْءُ عَلَى دِينِ
خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ یخالل
انسان اپنے دوست
کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ وہ دیکھے کہ وہ کس سے دوستی
کر رہا ہے
آج سے کچھ سال
پہلے یہ رواج نہیں تھا جو اب بہت عام ہو گیا ہے کہ چھوٹے بچے بھی اپنے دوستوں کے گھروں
میں اکیلے پورا دن گزارتے ہیں اور والدین اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ کیا کر
رہے ہیں اور کن سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا اس صحبت سے وہ کیا کچھ سیکھ رہے ہیں۔برتھ
ڈے پارٹی اور لنچ پارٹیز کے نام پر کیا کچھ ہو رہا ہے ۔بچے کے دوستوں کے والدین سے
دوستی بڑھایئے اور لازمی اس بات کا علم رکھیں کہ آپ کے بچے کا دوست کس گھرانے سے
تعلق رکھتا ہے۔
۱۰:ساتر اور با
حیا لباس پہنایئے چاہے بالغ ہو یا نہ بالغ۔افسوس کے ساتھ آج جتنے واقعات جنسی
زیادتی کے ہو رہے ہیں چاہے وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو اس کی بڑی وجہ بے
حیائی اور عریانی ہے جو لباس بیس تیس پہلے پہننا ناممکن سمجھا جاتا تھا آج وہ عام
ہے (چھوٹی بچیوں کو بھی مناسب لباس پہنایئے کیونکہ آج سے بیس سال پہلے نہ ہی
بچیوں کا ایسے لباس پہنائے جاتے تھے اور نہ ہی زیادتی کے واقعات اس قدر عام تھے)
کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ جراثیم کو عام کردیا جائے اور پھر بیماری نہ
پھیلے یہ تو ایسے ہی ہے گویا کہ مٹھائی اور آئسکریم باہر رکھ کر کہا جائے کہ
مکھیاں نہ آئیں ۔ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے۔اور آج ہم ان سب کا سامنا کر رہے
ہیں ۔
اللہ مجھے اور
آپ کو ان فتنوں سے بچائے اور اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کرنے کی توفیق
عطا فرمائے اور ان کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے(آمین)
سارہ اقبال
۔