How TO Discipline Your Child
گھر اور سکول میں بچوں کو ڈسپلن کرنے کی کچھ ٹیکنیکس ہیں اس
ضمن میں بچوں کی نفسیات کے بارے میں جتنا زیادہ علم اور سمجھ ہوگی اتنی زیادہ
آسانی ہوگی ان میں سے چند ایک کو بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھا گیا ہے۔
اپنے طلبا،بچوں کے احساسات اور ضروریات کو
سمجھیں اور اپنے احساسات اور ضروریات ان کو بیان کریں۔
اپنی کلاس کو دعوت دیں کہ وہ درپیش آنے والے
کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنے دماغ لڑائیں اور سوچیں مثلا بعض اوقات آپ
کلاس میں کوئی سوال پوچھتے ہیں تو سب ایک ساتھ جواب دینا شروع کر دیتے ہیں اور یوں
کلاس میں ایک شوروہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔
اس صورت میں بچوں سے سب سے پہلے اس کا سبب جانیں
پھر اس سب کے نتیجہ میں اپنے احساسات بیان کریں کہ آپ کیا محسوس کرتی ہیں اور اس
سب کی وجہ سے کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
پھر اس مسئلے کا حل پوچھیں اور اس
کے لئے ان کی تجاویز لیں۔
اس کے بعد اس میں سے بہترین کا انتخاب کرکے اس پر عمل درآمد کو
یقینی بنانا ہوگا۔۔
مثلا اپنے احساس میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ
یوں جب آپ لوگ جواب دیتے ہیں تو مجھے کسی کی بھی بات سمجھ نہیں آتی،شور ہوتا ہے
آپس میں جھگڑا بھی ہوتا ہے۔۔۔۔(مسئلے کے
حل کے لئے بچوں سے تجاویز لیں)پھر اصول
بنا لیں کہ جس کو جواب دینا ہے وہ ہاتھ کھڑا کرے گا اب آپ کو اس کی پانبدی یقینی
بنانی ہے کہ صرف اسی بچے سے جواب لیا جائے جو ہاتھ کھڑا کرکے صبر سے اپنی باری کا
انتظار کرے اس سے ہی جواب پوچھا جائے ۔۔
کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے جو بھی حتمی تجاویز
طے ہو یا کوئی بھی اصول بنائیں تو ان کو خوبصورت انداز میں لکھ کر گھر ،کلاس روم
میں لگا لیں کیونکہ بچوں کو بار بار یاددہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
نوٹ:(بچے کی ضروریات اور احساسات کو ضرور
سمجھیں)
تعریف اور تنقید:
بچوں کی خوبی کا تعین نہ کریں(یعنی کوئی بھی
لیبل نہ لگائیں) بلکہ خوبی کو واضح کریں ۔مثلا اگر بچہ کوئی ڈرائنگ بنا کر لائے تو اس
کو یہ کہہ دینا کہ تم بہت زبردست پینٹر ہو یا بڑی زبردست ڈرائنگ کرتے ہو اس کے
بجائے جو تصویر وہ بنا کر لایا ہے اس پر غور کرکے اس میں مثبت اور قابل تعریف پہلو
تلاش کریں کہ اس میں رنگ بہت اچھے بھرے ہیں یا اس میں پہاڑ بہت خوبصورت بنائے ہیں
،کام بہت صفائی سے کیا ہے۔۔۔ جب آپ یوں
اس کے کام کو سراہیں گے تو بچے کو بھی اپنے ہوئے کام پر تنقید اور اصلاحی پہلوؤں
کو سننے کا حوصلہ ملے گا۔ورنہ کسی بھی اچھے کام کو کرنے پر اس کام میں پائے جانے
والی خوبیوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی نشاندہی کرنے کے بجائے آپ اس بچے یا
پورے کام کو ہی اچھا قرار دیں گے تو بچہ خود کو بھی پرفیکٹ سمجھنے لگے گا
مزیدسیکھنے اور محنت کرنے پر توجہ نہیں دے گا اور آئندہ نہ تو تنقید برداشت کرسکے
گا اور نہ ہی بآسانی غلطی تسلیم کرپائے گا۔
۔
بہت زیادہ تعریف مت کریں ورنہ بچے تعریف سننے کے
عادی ہو جاتے ہیں اور پھر اسی کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ بعض اوقات بہت زیادہ تعریف
بچوں کو چڑچڑا بنا دیتی ہے۔
۔
غلطی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے آغاز اس کام
سے کیا جائے جو بچوں نے کیا ہے ۔پھر جو کام ہونا چاہیئے تھا اس کے بارے میں بعد میں بات
کریں تو بچوں کو اپنی اصلاح کرنے میں مدد ملتی ہے۔مثلا یہ کہنا کہ آپ نے فلاں
فلاں کام تو کر لیا ہے اب دیکھو کیا کیا رہتا ہے۔۔
بچوں کے لئے سیکھنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب
وہ پوری توجہ کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر وہ اس فکر میں ہو کہ
ان کا کام کیسا ہے اور دوسرے کیا رائے دیں گے تو پھر سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔
اگر ایک سے زیادہ بچوں کو آپ نے کلاس میں ایک
ہی کام دیا ہے یا بہن بھائیوں میں ۔تو کسی بچے کی اچھی کارکردگی پر یا جلدی کام
کرلینے پر اس بچے کا نام لے کر اس کی تعریف کرنے کے بجائے اس کے کام کی تعریف کی
جائے مثلا آپ نے کوئی سوال دیا تھا حل کرنے کو،اب ایک بچے نے بہت اچھی ظرح سے اس کو حل کیا اور
ساری ہدایات پر عمل کیا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس کے
جواب کو اپنے ہاتھ میں لے کر سب بچوں کو وہ جواب دکھایا جائے اور قابل تعریف
پہلوؤں کا ذکر کرکے حوصلہ افزائی کی جائے۔
ایسا
کرنے کی کئی وجوہات ہیں
جس بچے نے محنت کرکے جواب آپ کو لکھ کر دیا اس
کو معلوم ہو گیا کہ میرے اس جواب کو سراہا گیا اور اس کے لاشعور میں بیٹھ جائے گا
کہ مجھے اس کام کی وجہ سے تعریف سننے کا موقع ملا ہے اور میرا قابل تعریف پہلو یہ
ہے۔
اگر آپ کام کی وضاحت نہیں کریں گے اور محض بچے
کی تعریف کریں گے تو اس طرح سے باقی بچوں کے دلوں میں اس بچے کے لئے حسد پیدا ہوتا
ہے اور خواہ مخواہ کلاس میں منفی مقابلے
کا ماحول اور ایک دوسرے کے لئے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔اور باقی بچے اس بچے کی
ہر چیز سے اپنی چیزوں کا موازنہ کرنے لگتے ہیں ۔۔
آپ بچوں کو جو بنانا چاہ رہے ہیں یا جیسا ماحول
دینا چاہ رہے ہیں اس کی آئیڈیل صورتحال یا مثال ان کے سامنے ضرور پیش کریں تاکہ بچوں کے ذہن میں ایک واضح نقشہ ہو کہ ہمیں
ایسا بننا یا یہ کرنا ہے۔
مثلا جب مجھے کلاس میں کسی اہم سبق کا آغاز
کرنا ہو تو تھوڑی سی موضوع سے ہٹ کر اس انداز میں بات کرتی ہوں کہ صحابہ کرام کا
تعارف ان کی رسول اللہ ﷺ سے محبت ،کی مجلس میں بیٹھنے اورسیکھنے کا انداز اور اس کے لئے ایک بہترین مثال کہ وہ
پیارے رسول اللہ ﷺ کی بات اتنے غور و ادب سے سنتے تھے کہ ان کےسروں پر پرندے بیٹھ جاتے تھے(اور اس کی
مکمل وضاحت کہ کیوں ایسے بیٹھتے تھے یا پرندے کیسے بیٹھ جاتے تھے)۔۔۔اس طرح ایک
مثال سے ان کو واضح کرکے کلاس میں ڈسپلن قائم کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملتی
ہے کیونکہ جب تک ہم مثال پیش نہیں کرتے بچے کو محض یہ کہتے چلے جانا بیکار ہے کہ
ڈسپلن کا مظاہرہ کرو یا آرام سے بیٹھو۔۔
۔اس طرح سے اگر کوئی بچہ باقی بچوں کے مقابلے
میں آپ کی بات کو زیادہ اچھے طریقے سے مان رہا ہے تو بغیر اس کا نام لئے اس کے
قابل تعریف پہلو کا تذکرہ اس انداز میں کرنا باقی بچوں کی اصلاح میں بھی مددگار ہو گا مثلا کہ مجھے اس
وقت ایسا بچہ اچھا لگ رہا ہے اور میرے دل سے اس بچے کے لئے دعائیں نکل رہی ہیں جو
اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا توجہ سے میری بات سن رہا ہے۔(اس کے بعد بچے خود ادھر
ادھر دیکھیں گے کہ کون ہے اور کس کی تعریف کی جا رہی ہے اور خود کو اس درجہ پر لے
جانے کی کوشش کریں گے)
اپنے احساسات بیان کریں۔
بچوں کو طنز کرنے ،مجرم ٹھرانے اور حکم دینے اور
تقریر کرنے کے بجائے ان سے اپنے احساسات بیان کریں اور مسئلہ بیان کریں (ان کی اس
غلط حرکت
کے نتیجے میں ملنے والی پریشانی اور احاس بیان کریں
) ایک مثال کہ بچے اکثر ٹیسٹ پر یا ورک شیٹ پر اپنا نام لکھنا بھول جاتے ہیں اس پر یہ طعنہ دینا کہ یہ کون عقل مند جس نے نام نہیں لکھا۔۔۔یا بعض اوقات کلاس کے فرنیچر اور دیواروں پر لکھتے ہیں تو یہ کہنا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ یہاں لکھو۔۔۔۔اس کے بجائے(یاددہانی کے طور پر معلومات دیں)ڈیسک لکھنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے کاغذ ہوتا ہے اور اگر فرنیچر یوں خراب ہو جائے تو بدنما لگتا ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا۔۔۔یا بچے اگر فرش پر پانی یا کچھ بھی گرا دیں تو کسی بھی قسم کے غلط جملے بولنے کے بجائے صرف یہ کہا جائے کہ اب تو یہاں پر فرش گندا ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی پھسل بھی سکتا ہے(یعنی بچوں کے شعور کو جگانا ہے ان کی اس حرکت کے نتائج پر ان کی توجہ دلانا مقصود ہو)تو بچہ فورا اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کے نتیجے میں ملنے والی پریشانی اور احاس بیان کریں
) ایک مثال کہ بچے اکثر ٹیسٹ پر یا ورک شیٹ پر اپنا نام لکھنا بھول جاتے ہیں اس پر یہ طعنہ دینا کہ یہ کون عقل مند جس نے نام نہیں لکھا۔۔۔یا بعض اوقات کلاس کے فرنیچر اور دیواروں پر لکھتے ہیں تو یہ کہنا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ یہاں لکھو۔۔۔۔اس کے بجائے(یاددہانی کے طور پر معلومات دیں)ڈیسک لکھنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے کاغذ ہوتا ہے اور اگر فرنیچر یوں خراب ہو جائے تو بدنما لگتا ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا۔۔۔یا بچے اگر فرش پر پانی یا کچھ بھی گرا دیں تو کسی بھی قسم کے غلط جملے بولنے کے بجائے صرف یہ کہا جائے کہ اب تو یہاں پر فرش گندا ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی پھسل بھی سکتا ہے(یعنی بچوں کے شعور کو جگانا ہے ان کی اس حرکت کے نتائج پر ان کی توجہ دلانا مقصود ہو)تو بچہ فورا اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
۔
اسی طرح سے بچے اکثر کپڑوں سے بہت چمٹتے ہیں اور
کھینچتے ہیں یا پیچھے سے لٹکتے ہیں اس پر ڈانٹنے اور جھڑکنے سے بہتر ہے کہ یہ بیان
کیا جائے کہ بیٹا جب ایسا کرتے ہو تو میری کمر ۔۔۔۔یا جو بھی مشکل۔۔
(اس ضمن میں یہ
یاد رہے کہ کچھ رویے نارمل ہوتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں اس لئے عمر کے
حساب سے عمومی رویوں کو علم ہونا ضروری ہے ورنہ یہ چیز آپ کے بچے کی تخلیقی
صلاحیتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے) مثلا کسی
نئے بندے سے ملنے اور سلام لینے کے بجائے بچے اپنے والدین کے ساتھ چمٹتے اور کپڑے
پکڑ کر پیچھے چھپتے ہیں تو یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ حیا اور عدم تحفظ کا احساس غالب ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرتے ہیں
اس صورت میں ڈانٹنے کے بجائے آپ بغیر کچھ کہے ان کا ہاتھ خود پکڑ کر ملوا دے) یا
ایک اور مثال ڈیڑھ سے پانچ سال کی عمر کا بچہ پنسل ،بال پوائنٹ پکڑ کرپردوں کے
پیچھے چھپ کر دیواروں یا مختلف جگہوں پر لکھتے ہیں یہ ایک فطری چیز ہے ایسا کرنے
پر آپ جتنا بھی ڈانٹیں یا ماریں گی بے سود ہو گا بہترین حل یہ ہے گھر کی ایک دو
دیواروں پر بڑے بڑے چارٹ پیپر لگا کر ان کو مخصوص حصہ دیا جائے تاکہ وہ اس پر
آزادی سے لکھ سکیں اور ہر بار یاد دہانی کروائی جائے کہ لکھنے کے لئے تو کاغذ
ہوتا ہے ۔۔اسی طرح سے ایک اور صورت حال سے
سب کو سامنا کرنا پڑتا ہے کہ دو سے چھ ،سات سال تک کا بچہ ہر کام کو خود کرنے کی
کوشش کرتا ہے کیونکہ اس وقت بچے کے اندر ایسے ہارمون پیدا ہوتے ہیں جو اس کو شدت
سے اس بات کی ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ ہر وہ کام کرے جو بڑے کرتے ہیں اسی لئے اس عمر
کے بچے ایک ہی جملہ بولتے نظر آتے ہیں میں خود کروں گی یا میں خود کروں گی تو ان
کو اس کام سے روکے مت بلکہ ان کی عمر کے لحاظ سے ان کو اس کام کو کرنے میں مدد دیں۔۔
بچوں سے کبھی بھی لمبی بحث نہ کریں
کیونکہ آپ استاد یا ماں ہے ،یہ دونوں مقامات
ہی ادب کے قابل ہیں آپ کے لمبی لمبی دلائل و بحث ان کے دل میں موجود آپ کا لحاظ ختم کر دیں گے اپنے آپ کو کبھی
بھی اس مقام سے نیچے مت لائیں اس لئے ان حدود کا خاص خیال رکھیں اگر بچہ بات کو
طول دے بھی تو اپنا مؤقف وقار کے ساتھ بیان کر کے خاموش ہو جائیں۔
بعض اوقات لمبی بات کرنے کے بجائے محض ایک لفظ
میں یا اشارہ سے بات کریں اس سے
بچے کی
ذہانت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو ماحول سے سیکھنا آجائے گا
لمبی لمبی تقریروں اور وضاحتوں سے
بعض اوقات اکتا جاتے ہیں محض ایک لفظ یا اشارہ انہیں مطلوبہ کام کرنے پر آمادہ کر
دیتا ہے۔ ۔مثلا آپ نے کوئی سوال پوچھا ہے اور سب لوگ ایک ساتھ بول پڑے ہیں تو اس
صورت میں یاددہانی کے انداز میں اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کی
یاددہانی کروائی جاسکتی ہے۔۔یا بچے سردیوں میں گھر سے باہر جاتے وقت سویٹر نہیں
پہنتے تو لمبی بات کرنے کے بجائے یاددہانی کے انداز میں بس اتنا کہہ دینا بھی کافی
ہوگا کہ ـ(بیٹا سویٹر)نوٹ:یہ اس صورت میں فائدہ دے گا اگر آپ اس بارے میں پہلے نتائج
اور سبب پر بات کر چکے ہیں۔
جیسا رویہ آپ پسند کرتے ہیں اس کا نمونہ بنیں:
۔اس اصول کو نہ صرف بڑے بڑے معاملوں میں
اپنائیں بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اس بات کا خیال رکھیں ورنہ آپ کی باتیں بے
اثر ہو جائیں گی مثلا کلاس میں بچے شور کر رہے ہو تو آپ کا چیخ کر کہنا کہ سب
خاموش ہو جائیں وقتی طور پر خاموش تو کروادے گا مگر بچے نے آپ کے اس ردعمل سے کچھ
بھی مثبت نہیں سیکھا ۔
جاری ہے۔۔ ۔
۔
۔