کسی کی مدح و توصیف اسلام کی روشنی میں
کسی کی تعریف کرنے کے معاملے میں ہم لوگ افراط وتفریط کا شکار رہتے ہیں.
ہم اکثر مجموعی طور پرہی کسی بھی شخص کو اچھے یا برے ہونے کا ٹائٹل
دیتے ہیں۔ بعض لوگ اتنے خود پسند ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے علاوہ دوسرے کسی انسان میں
کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ کسی کی تعریف کرنے کے معاملے میں بخیل ہوتے ہیں۔
دوسروں کی معمولی خامیوں اور کوتاہیوں کو فورا نوٹ کر لیتے ہیں اور پھر ان کو خوب
اچھالتے ہیں، لیکن ان کی خوبیوں اور اچھائیوں پر ان کی نظر نہیں پڑتیں اور ان کی زبانوں
سے ان کے حق میں دو بول نہیں نکلتے۔
اس کے برعکس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی
تعریف و تحسین میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ وہ کسی کی تعریف کرنے پر آتے ہیں تو اس
کے پل باندھتے چلے جاتے ہیں، خوشامد اور چاپلوسی ان کا شیوہ ہوتا ہے، متعلقہ شخص
کے سامنے اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔
۔سوشل میڈیا پر اکثر
دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی تعریف میں مبالغہ
آرائی سے کام لیا جاتا ہے کسی نے اچھی تحریر ،آرٹیکل یا پوسٹ لکھی یا شیئر کیا تو کمنٹس میں تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں۔ایسا
کرنے سے اگلا شخص اپنے آپ کو قابل تعریف
سمجھنے لگتا ہے یا کسی کے خوبصورت کپڑے ،کھانا ،گھر ،گاڑی یا موبائل سے متاثر ہو
کر لمبی لمبی تعریفیں کرنا وغیرہ باقاعدہ ایک رواج بن گیا ہے۔ اسلاف سے ان معاملات
میں تعریف کرنے کے آثار بہت کم ملتے ہیں اور جو روایات ملتی ہیں وہاں بھی انداز بیان ایسا نہیں
جیسا ہمارا ہوتا ہے۔
بہت زیادہ تعریف دوسرے کو گمراہی اور بگاڑ میں
مبتلا کرد یتی ہے ۔ ایسا شخص خود پسندی یا عجب کی بیمری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور
عجب ایسی بیماری ہے کہ انسان کو ناکارہ کرنے کے لئے یہ تنہا ہی کافی ہے۔
جبکہ ایسا کرنا تو اجتماعی معاملات میں بھی خطرے
سے خالی نہیں، اجتماعی معاملات مثلا شادی کاروبار یا کوئی بھی ایسا معاملہ ان میں
تعریف کرنا ایسا ہے کہ گویا آپ کسی کی گارنٹی دے رہے ہیں اس لئے تعریف بہت سوچ
سمجھ کر کرنی چاہیئے۔
کسی کے سامنے تعریف کرنے کے حوالے سے شرعی حکم:۔
حضرت مقدادؓ کے بارے
میں آتا ہے کہ وہ جہاں بھی دیکھتے تھے کہ کوئی شخص کسی کی مدح وتوصیف کر رہا ہے،
فوراً اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے مدح کرنے والے کے چہرے پر مٹی پھینکنے لگتے
تھے
عَنْ هَمَّامِ بْنِ
الْحَارِثِ، أَنَّ رَجُلًا جَعَلَ يَمْدَحُ عُثْمَانَ، فَعَمِدَ الْمِقْدَادُ فَجَثَا
عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَكَانَ رَجُلًا ضَخْمًا، فَجَعَلَ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ الْحَصْبَاءَ،
فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمِ
التُّرَابَ» ۔
۔ ایک موقع پر ایک
شخص نے حضرت عثمانؓ کے سامنے ان کی تعریف کی۔ حضرت مقدادؓ وہاں موجود تھے۔ انھوں نے
اسے دے مارا اور اس پر چڑھ کر اس کے چہرے پر مٹی پھینکنے لگے۔ حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ نے فرمایا: ارے، یہ کیا؟ انھوں نے فوراً اللہ کے رسول یہ ارشاد سنایا کہ: جب تم مبالغہ آمیز تعریفیں کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پرمٹی ڈال دو۔
اس کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو بولنے کا موقع ہی نہ دواور حقیقی طور پر مٹی ڈالی جائے چنانچہ حدیث کے راوی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
اس کا دوسرا مفہوم
ناکامی ومحرومی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص تمھاری بے جا تعریف وتوصیف کرے تو اسے کچھ نہ
دو، اسے اس کے مقصد میں ناکام بنا دو۔ یہ تعبیر عربی زبان میں کثرت سے آئی ہے۔ اور
بعض دیگر احادیث میں بھی اختیار کی گئی ہے۔
محدثین نے اس کے بعض دیگر مفہوم بھی بیان کیے ہیں۔
تعریف کرنے پر لوگوں کے منہ میں مٹی ڈالنا یہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ہے مگر لوگوں کے شعوری و علمی کا حالات کا لحاظ
کرتےہوئے ہمیں مختلف احادیث میں تطبیق کرنا ہو گی اس لئے ہم یہ نہیں کریں گے کہ جو
کوئی تعریف کرے اس کے منہ میں مٹی ڈال دے
کیونکہ کسی بھی فعل کو کرنے کے لئے حکمت کا تقاضا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ
کسی بھی خاص فعل کو کرنے سے نتائج کیا برآمد ہوں گے اور لوگوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے
ابن عربی کی تطبیق یہ ہے کہ آپ منہ میں مت ڈالے
لیکن اگر حکمت کے تقاضوں کو ملحوظ کرتے ہوئے آپ مٹی ہاتھ میں لے کر اس کے آگے پھینک دیں۔
امام نووی کہتے ہیں :کہ انسان کی تعریف اس کی
غیر موجودگی میں بھی کی جاتی ہے اور اس کے سامنے بھی۔اگر اس کی غیر موجودگی
میں کی جائے تو کوئی حرج نہیں مگر یہ کہ
اس میں جھوٹ شامل نہ ہو
عَنْ أَبِي مُوسَى
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رَجُلًا يُثْنِي عَلَى رَجُلٍ وَيُطْرِيهِ فِي مَدْحِهِ، فَقَالَ: «أَهْلَكْتُمْ -
أَوْ قَطَعْتُمْ - ظَهَرَ الرَّجُلِ»
1؎ ’’نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی خوب بڑھا چڑھاکر تعریف کرتے ہوئے سنا تو فرمایا
:’’ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘ یا فرمایا کہ ’’ تم نے اس کی کمر توڑ دی۔(صحیح
البخاری)
حضرت عبدالرحمن بن
ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص کا نبی ﷺ کی مجلس میں ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تعریف میں اس نے یہ جملہ بھی کہا ’’اے اللہ کے رسول
ﷺ، فلاں معاملے میں تو آپ کے
بعد اس سے افضل کوئی دوسرا شخص نہیں ہے‘‘۔
آپ صلیٰ اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: وَيْحَكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ
(تمھارا برا ہو، تم
نے اپنے ساتھی کی گردن مار دی۔ ) راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آپؐ نے کئی بار دہرائی۔
عَنْ مُعَاوِيَةَ
قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِيَّاكُمْ
وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ
حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں
نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تعریف کرنے میں مبالغہ سے بچو کیونکہ یہ ذبح کرنا ہے۔
(مسند احمد،سنن ابن ماجہ)
ذبح کرنے کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا کیونکہ جس طرح کسی کو قتل کرنے سے اس کی جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے اسی طرح سے کسی کی منہ پر تعریف کرنے سے اس کی روحانی اور اخلاقی موت واقع ہو جاتی ہے اس میں کئی خرابیاں ،نقصانات اور مسائل ہیں:
دلوں کو مردہ کردیتی ہے
جس شخص کی تعریف کی جاتی ہے وہ اپنے بارے میں
دھوکہ کا شکار ہو جاتا ہے
فخر اور
تکبر کا شکار ہو جاتا ہےاور اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی تعریف کی
جائے
اس لئے بعض اسلاف نے کہا ہے
اگر کوئی آپ کے ساتھ اچھا کرے اور وہ اس بات کو
پسند کرتا ہو کہ اس کی تعریف کی جائے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کے درمیان خود کو
نمایاں کرے تو اس کے اچھے فعل پر اس کی تعریف نہ کرو بلکہ اس کے بجائے اس کے لئے
دعا کرو جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا
مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ
مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاء
جب کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے( بھلائی کی
جائے )تو وہ اس کے کرنے والے کو یہ کہے(دعا دے):اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
تعریف کرنے میں مبالغہ کرنا بھی منع ہے۔
اس لئے اگر کوئی کسی شرعی مصلحت و ضرورت کے تحت
تعریف کرنا تو وہ اس طرح کے الفاظ کہے
مدح(تعریف) کا صحیح
طریقہ:
اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس کا صحیح طریقہ بھی بتایا ہے
مَنْ كَانَ مِنْكُمْ
مَادِحًا أَخَاهُ لاَ مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ،
وَلاَ أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ يَعْلَمُ
ذَلِكَ مِنْهُ ‘
جس شخص کو اپنے بھائی
کی تعریف ہی کرنی ہو تو وہ یہ کہے: ’’اس کے بارے میں میرایہ خیال ہے۔ حقیقت حال سے
تو اللہ ہی واقف ہے۔ میرا گمان یہ ہے۔ یہ کہہ
کر وہ اس کے بارے میں وہی بات کہے جس سے واقف ہو۔‘(صحیح البخاری)
حضرت مطرّف اپنے باپ
سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وفدِ بنوعامر کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ارکان وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے عرض کیا
’’اے اللہ
کے رسولؐ آپ ہمارے سردار ہیں ‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ سردار تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہے‘‘۔
ان لوگوں نے پھر عرض کیا: ’’آپ ہم میں سب سے افضل اور سب سے زیادہ داد و دہش کرنے والے
ہیں
آپؐ نے فرمایا
قُولُوا بِقَوْلِكُمْ،
أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ
یہ باتیں کہو یا ان
میں سے کچھ چھوڑدو، لیکن ہوشیار رہنا، کہیں شیطان تمھیں بہکا نہ دے۔(سنن ابی داؤد)
اس لئے اس طرح کے لیبل دینا بھی درست نہیں کہ فلاں
بڑا متقی و عابد ہے،یا فلاں بڑا نمازی روزہ دار ہے بلکہ اس کے متبادل جملے بولے
جائیں کہ میں نے اس کو نماز روزہ وغیرہ تاکید کے ساتھ ادا کرتے دیکھا ہے اور ساتھ میں یہ ضرور کہا جائے کہ غیب کا حال
اللہ ہی جانتا ہے۔
اس شخص کے منہ پر
اس کی تعریف نہ کی جائے جس کے بارے میں اندیشہ ہو کہ اپنی تعریف سن کر گھمنڈ میں مبتلا
ہوجائے گا۔
رہا وہ شخص جس کے کمالِ تقویٰ، پختگی عقل اور علم
ومعرفت کی بنا پر فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو( عموما ایسا بہت کم ہوتا
ہے)، اس کے منہ پر تعریف کی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ محض اٹکل سے اس کے اوصاف نہ بیان
کیے جائیں بلکہ اگر ان اوصاف کے تذکرے میں کوئی مصلحت ہو:
مثلاً وہ شخص اعمالِ
خیر کے لیے مزید سرگرم ہوجائے یا انھیں پابندی سے انجام دینے لگے یا
دوسرے لوگوں میں اس کے مثل کام کرنے کا جذبہ پیدا
ہو تو اس صورت میں اس کی تعریف وتوصیف کرنا مستحب ہوگا
نیت نہ خراب کردے
حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ہو
تعریف نہ کئے جانے پر عمل نہ ترک کر دے
اس کے مقام کے لحاظ سے ہو
مبالغہ سے کام نہ لیا جائے
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا
لا تُطْرُونِي، كَمَا
أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ
اللَّهِ، وَرَسُولُهُ’
میرے بارے میں اس
طرح مبالغہ سے کام نہ لو جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں انتہائی
مبالغہ کیا۔ میں بندہ ہوں، مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔(صحیح البخاری)
اللہ تعالیٰ ہمیں
ہر معاملے میں میانہ روی اپنانے اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کوسمجھنے
و اپنانے اور صحابہ کے طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
تحریر
سارہ اقبال
۔
۔