Wednesday, 21 December 2016

saas ko sarny wala design



ساس کو ساڑنے والے ڈیزائن اور کپڑے


کچھ دن پہلے کسی ضروری کام سے لاہور کے ایک مشہور بازار "لبرٹی مارکیٹ" جانا پڑا ۔ کام کی مصروفیت میں تھوڑا دیر سے یاد آیا کہ عصر کی نماز ادا کرنی ہے ۔نماز ادا کرنے کے لئے فورا جگہ کی تلاش میں چلنا شروع کر دیا ۔بیشتر دوکانیں کپٹروں کی ہی تھیں۔
ایک دوکان دار  قریب کھڑی  خواتین کو دوکان میں بلانے کے لئے یہ کہہ کر بلا رہا تھا۔"باجی ادھر آؤ!یہ دیکھو ساس کو ساڑنے والے سارے ڈیزائن موجود ہیں ۔ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت جوڑا پہنو گی تو ساس جل بھن کر رہ جائے گی"۔
دوکان دار کا یہ جملہ سن کر شدید حیرت ہوئی اپنی رفتار کو آہستہ کیا تاکہ اس کی بات کو دوبارہ سن سکو کیوںکہ اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔دوبارہ وہی جملہ:"باجی ساس کو ساڑنے والے سارے ڈیزائن ۔۔۔۔ منہ سے بے اختیار استغفر اللہ نکلا اور میں اس کے بعد گھرواپس پہنچنے تک اس بارے میں سوچتی رہی کہ کیا لباس اس لئے بھی خریدے اور پہنے جاتے ہیں۔شریعت نے تو لباس کو پہننے کے تین ہی مقاصد دیئے ہیں۔
اولین مقصد ستر پوشی(قابل شرم حصوں کا ڈھانپنا)اور دوسرا مقصد زینت عطا کرنا ہے۔جیسا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا
اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بنے۔(الاعراف:۲۶)

لباس کا تیسرا مقصد انسان کو گرمی اور سردی سے محفوظ کرنا ہے۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ
اللہ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لئے سائے کا انتظام کیا ،تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں،تمہارے لئے ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور ایسے لباس جو باہمی جنگوں میں تمہاری حفاظت کرتے ہیں۔(النحل: 81)

اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں اگر ہے تو وہ باطل ہے۔جیسے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کے لئے اور فخر کرنے کے لئے مہنگے ،قیمتی  اور نادرو نایاب لباس پہنے تو یہ تکبر اور ریاکاری ہے جس کے بارے میں احادیث میں کچھ یوں وعید آئی ہے۔


حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے روایت کیا کہ ایک آدمی قیمتی سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھا وہ اس پر اترایا اور تکبر کیا اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔(مجمع الزوائد:کتاب اللباس)


ایک دوسری حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَمَا رَجُلٌ يَتَبَخْتَرُ، يَمْشِي فِي بُرْدَيْهِ قَدْ أَعْجَبَتْهُ نَفْسُهُ، فَخَسَفَ اللهُ بِهِ الْأَرْضَ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی دو پسندیدہ چادریں پہنے اتراتا ہوا چلا جا رہا تھا اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔(صحیح مسلم:کتاب اللباس)

اسی ظرح سے کسی لباس کو پہننے کا یہ مقصد ہو کہ خود کو نمایاں کیا جائے یا شہرت اور ناموری حاصل کی جائے تو یہ بھی مذموم ہے۔جیسا کہ حدیث میں آیا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا، أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے لئے لباس پہنا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لبااس پہنا کر آگ میں داخل کریں گے۔(سنن ابن ماجہ:۳۶۰۷)


مگر لباس خیدنے اور پہننے کا یہ مقصد میں نے پہلی بار سنا کہ محض اس لئے خریدا اور پہنا جا رہا ہے تاکہ دوسرے کو حسد میں مبتلا کیا جائے۔

اگر اس دوکاندار کی کہی ہوئی بات کو ایک دوسرے انداز سے لیا جائے تو یہ معاشرے کی اخلاقی پستی کی بہترین دلیل ہے کہ ہمارے باہمی تعلقات میں بگاڑ بدترین سطح پر ہے کہ ایک تاجر کو اپنی چیز فروخت کرنے کے لئے یہ جملہ کہنا پڑا ۔ہم کوئی بھی کام محض اس لئے کر رہے ہیں کہ دوسرے کو ذہنی اذیت و کوفت میں مبتلا کریں۔ہم رشتوں کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں
اس پیچیدہ کہانی کا سرا اس وقت ہاتھ آسکتا ہے اگر ہم پہلے اپنے مقصد کا تعین کر لیں کہ ہم اس زمیں پر کرنے کیا آئے ہیں۔اگر تو معاملہ صرف امتحان دے کر گھر واپس جانے کا ہےتو رویہ کچھ اور ہو گا۔اگر اس دنیا کو ہی اصل گھر سمجھ کر ساری خوشیاں یہیں سمیٹ لینے کا ہے تو رویہ مختلف ہو گا۔آخرت پیش نظر رہے تو فکروں اور چاہتوں کا  محور ہی مختلف ہو گا۔سارا لڑائی جھگڑا اور کھینچا تانی اسی وجہ سے ہے۔

۔ان رشتوں کو دیکھئے ساری گڑ بڑ مقام خلط ملط کر دینے سے ہوتی ہے۔ہر رشتے کا ایک مقام اور ہر محبت کا ایک ذائقہ ہوتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ ساس بہو کا رشتہہ وجود میں آنے سے پہلے تو محبت اور چاہت کا ہوتا ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے دشمن میں بدل جاتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔آنے والی بہو ہر وقت اپنے گھر اور اپنی ماں سے موازنہ کرتی ہے اور ساس اپنی بہو سے بیٹیوں جیسی محبت ۔اطاعت اور خدمت کی توقعات وابستہ کئے ہوتی ہے۔اور جب وہ توقعات ٹوٹتی ہیں تو ریت کا بنا یہ محل زمین بوس ہوتا ہے۔حالانکہ وہ تو خونی رشتے ہیں اس لئے مثالی محبت ہوتی ہے۔

اس میں آپ کا کیا کمال ہے کہ آپ کی بیٹی/ماں کی طبیعت خراب ہو تو آپ بے چین و پریشان ہو کر خدمت و تیمارداری میں لگ جائیں۔یہ بے چینی و خدمت تو فطری امر ہے کیونکہ وہاں محبت اللہ نے دل میں ڈالی ہے کیونکہ وہاں اللہ نے دل میں محبت ڈالی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔آپ کا کمال تو تب ہے کہ جہاں فطری نہیں ہے وہاں محنت کرکے تعلقات کو بہترین راہوں پر استوار کیا جائے۔
بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر نہ سہی مگر مناسب سے انداز میں ایک دوسرے کی خیرخواہی اور باہمی تعاون کے ساتھ گھر کے ماحول کو خوشگوار اور پرسکون رکھا جا سکتا ہے

صبر، تحمل،برداشت اور قربانی جو خاندانی زنگی کے لوازم ہیں وہ نہ ادھر سے فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ادھر موجود ہوتا ہے تو گھر کیا خاک چلیں گے۔گھریلو زندگی یا کسی بھی تنظیم کو کامیابی سے چلانے میں بنیادی قاعدے یہ ہیں:

1.تقویٰ (باہم معاملہ کرتے ہوئے اللہ کا ڈر سب سے غالب پہلو ہو)

۔ 2.معاملات کی بنیاد اخلاص پر ہو۔(جہاں ہر اخلاص موجود نہ ہو وہاں پر بے برکتی اور فساد لازمی ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو نیتیں خراب ہونے اور ارادے ناپاک ہونے سے بچاتی ہے).

3۔اچھا گمان کرنا
 
4.باہمی تعاون کرنا(یہ تعاون کئی طرح سے ہوتا ہے)
(ا)مالی تعاون
(ب)کاموں میں تعاون
بیماری و صحت میں تعاون یا کسی بھی قسم کا تعاون

یہ وہ سب اصول ہیں جو بہترین تعلقات کی بنیاد ہیں چاہے وہ تعلق شوہر بیوی کا ہو یا اولاد والدین کا۔اگر ان میں سے کوئی ایک بھی چیز کم ہوئی باہمی محبت اور سکون نہیں حاصل کر سکیں گے۔

اس کے برعکس تعلقات میں بگاڑ تب آتا ہے جب یہ سب نہ ہو اور اس کے برعکس یہ سب ہو
. 
1.تجسس(ہاتھوں ،کانوں اور اشاروں سے تجسس)
. 
2.غیبت کرنا

بدگمانی کرنا
 (شیطان اپنا خوب اثر دکھاتا ہے اور ہمارے ذہن اس میں بہت تیزی سے چلتے ہیں۔بدگمانی اپنا اثر بہت جلدی دکھاتی ہے)
یعنی اللہ اور آخرت میں جوابدہی سے بے خوفی، غیبت ،بدگمانی اور تجسس جس  بھی تعلق اور گھر میں داخل ہوجائیں وہاں تباہی و بربادی ضروری ہوتی ہے.کیونکہ جب آخرت کی منزل نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے تو ساتھ ہی اللہ کی رضا کے بجائے نفس کی تسکین اور دنیا کی حرص وہوس ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو قرآن میں اللہ نے بیان فرمایا:
ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِما كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا بوجہ اس کے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا،تاکہ وہ انہیں اس کا مزہ چکھائے جو انہوں نے کیا ہے،تاکہ وہ باز آجائیں(الروم:۴۱)
یعنی معاشرے میں فساد اور بگاڑ ہماری اپنی ہی ہاتھوں کی کمائی ہے ہم  خوشیوں کو حاصل کرنے،پرسکون زندگی گزارنے اور بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے قرآن و سنت سے راہنمائی لینے کے بجائے سٹار پلس، ٹی وی ڈراموں اور فلموں سے لا شعوری طور پر تربیت لے رہے ہیں جو خاندانی نظام کو تباہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں افسوس کے ساتھ ہمارے تعلیمی اداروں اور سلیبس میں بھی کوئی تربیتی مواد موجود نہیں ہے۔ جو ہمیں اس حوالے سے کوئی راہنمائی دے۔دن رات ایک کرکے جن کتابوں کو رٹا جاتا ہے وہ ہمیں عملی زندگی میں راہنمائی دینے سے خالی ہیں  ہمیں راہنمائی اور ہدیت کے لئے واپس انہی دو چیزوں کو تھامنا ہوگا جن کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اگر ان کو تھام لیا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ قرآن و سنت ہیں تاکہ ہم اپنے گھروں میں سے کھویا ہوا سکون واپس لا سکیں اور اپنی آخرت کو بھی تباہ ہونے سے بچا سکیں۔
اللہ ہمیں اخلاص کے ساتھ معاملہ کرنے اور صحیح معنوں میں ہدایت کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

                                                   سارہ اقبال ۔


2 comments:

  1. موضوع بہت طویل ہے مگر یہ اس نقطہ نطر سے لکھی گئی ہے کہ پیش آنے والے مسائل کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے اور
    اپنی آخرت کو برباد ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے

    ReplyDelete
  2. Very thought provoking .. and very shocking

    ReplyDelete