Saturday, 17 September 2016




حج کی سعادت ملنے پر چند تاثرات



سارہ اقبال








بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
اس سال اللہ تعالی کی خاص رحمت کہ اللہ نے مجھے حج کی سعادت بخشی  اس سفر میں جو کچھ محسوس کیا اور جو کچھ سیکھا اس میں سے بعض باتیں لکھتی گئی تاکہ ان کیفیات کو میں تازہ رکھ سکوں



1.زندگی کی حقیقت کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا. پہلی بار یہ پتا چلا کہ ہماری اصل ضروریات کتنی ہیں؟تعیشات کون سی ہیں؟اور سہولیات کتنی ہیں؟؟
حج کے پانچ دنوں میں ایک وقت کھانا کھاتے اور باقی دن مشروبات پر گزرتا پھر بھی بہت چست رہتی۔ کوئی سستی یا نقاہت محسوس نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔غور کرنے پر معلوم ہوا کہ عام حالات میں تین وقت کا کھانا ،ہر وقت بھوک محسوس ہونا اور بھوک کا علاج نہ کرنے پر نقاہت محسوس کرنا یہ سب اسی لئے ہے کہ بلا مقصد دن اور رات گزارے جاتے اور جب کھانا پینا مقصد بنا کر زندگی گزاری جائے تو کھانے پینے میں سے کچھ بھی کم ہو جانے پر زندگی میں کمی محسوس ہوتی ہے اور ناشکری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، انسان غم اور پریشانی کا شکار رہتا ہے
حدیث
الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مَلَأَ ابْنُ آدَمَ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ، حَسْبُ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثُ طَعَامٍ، وَثُلُثُ شَرَابٍ، وَثُلُثٌ لِنَفْسِهِ»مسند احمد:17186

مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ابن آدم نے اپنے پیٹ سےزیادہ کوئی برا برتن نہیں بھرا،ابن آدم کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اسکی کمر کو سیدھا رکھیں،پھر اگر ضروری ہو تو ایک تہائی کھانا،اور ایک تہائی پانی کے لیے ،اور ایک تہائی ہوا کے لیے"

مجھے احساس ہوا کہ میں بے مقصد دن اور راتیں گزار رہی تهی لیکن یہاں ایک بڑے مقصد کے تحت وقت گزار رہی ہوں اور میرے اس مقصد میں کهانا پینا شامل نہیں ہے بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی راہ میں اگر کهانا پینا رکاوٹ بننے لگے تو انکو آگے پیچهے کرکے اپنے معمول کو اسکے مطابق بنا لیتی۔
جس شخص کی زندگی کا کوئی مقصد یا ہدف ہو وہ اس کے حصول میں آنے والی رکاوٹ  ایک طرف کرکے اپنا سفر جاری رکهتا ہے کہ کہیں اس رکاوٹ کی وجہ سے خسارہ نہ اٹهانا پڑے..اسکی سادہ سی مثال کسی کا ڈاکٹر بننا ہے کہ وہ بھی خاندان کی شادیاں اور بھی بہت سی ایسی چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جو اس کو اپنے ہدف کے حصول میں رکاوٹ محسوس ہوتی  ہیں۔۔۔۔۔

2۔ہماری زندگی میں کهانا صرف اس حد تک مطلوب اور ضروری ہے جو جسم کو طاقت دے مضبوط اور صحت مند بنائے، کپڑے اتنے ضروری ہیں جو  ستر کی حفاظت کریں
 مگر طرح طرح کے کهانے اور رنگا رنگ لباس سب تعیشات ہیں، سونے کے لئے صاف زمین کا ہونا  اور موسم کے اثرات سے محفوظ رکهنے کے لئے ایک بستر میری ضرورت ہے، اس بستر کا نرم ہونا ایک سہولت ہے۔ مگر یہ خواہش کہ یہ بستر،کپڑے اور کهانے اعلی، مزیدار اور برینڈڈ ہو تو عیش پسندی ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مُعَاذُ إِيَّاكَ وَالتَّنَعُّمَ، عِبَادُ اللهِ لَيْسُوا بِالْمُتَنَعِّمِينَ"
نبی صلی الله علیه وسلم نے فرمایا "اے معاذ عیش پرستی سے بچنا الله کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے."

3۔۔ میں نے اس سفر میں اپنا حق چهوڑنا سیکها بستر،جگہ، برتن سب کچھ دوسروں کے ساتھ مل بانٹ کر استعمال کیا۔ ہمارے کیمپ میں اصل تعداد سے زیادہ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے مگر ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر پرسکون تھا۔ چند ایک نے اس جذبے(قربانی ایثار اور تعاون) کو اور ترویج دی تو مزید اچھا وقت گزرا۔ اس تجربے نے یہ احساس پیدا کیا کہ محدود وسائل کے ساتھ بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ میری اس سوچ کی بھی تردید ہوئی کہ ہر چیز انسان کے پاس اپنی موجود ہونی چاہئے تاکہ ضرورت کے وقت کسی سے ادھار نہ لینی پڑے۔ ڈھیروں برتن بستر وغیرہ اس لئے ہونے چاہیے تاکہ زیادہ مہمان آنے پر کسی سے کچھ لینا نہ پڑے جبکہ ہمارے دین میں صحابہ اور صحابیات کی اسکے برعکس مثالیں موجود ہیں۔۔۔۔مثلا حضرت عائشہ رضی اللہ عنها کی شادی کا ایک جوڑا ہی باقی انصار و مہاجرین کی لڑکیوں کے لئے کافی تھا جس کو ضرورت پڑتی وہ وہی جوڑا استعمال کرتی تھیں۔

4۔۔ وہاں کم سونے کے باوجود میں بہت تازہ دم رہی کیوں کہ وہاں کسی مقصد کے تحت دن اور راتیں گزار رہی تھی۔ یہ سوچا ہوا تھا کہ یہاں تھکنا نہیں بلکہ اس سب میں خود کو تازہ رکھنا اور خوش رہنا ہے چوں کہ ہمارا جسم ہماری سوچ کے تابع ہے۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ہمارا جسم بھی اسی کے مطابق کام کرتا ہے اور ویسا ہی ردعمل دیتا ہے (جیسے کسی کو بازار جانے کا شوق ہو تو وہ خریداری کے دوران جلدی نہیں تھکےگا)میں نے واقعی اس سوچ کے تحت کام کر کے بہت لطف اٹھایا  کسی کی چائے پانی اور کھانے میں مدد  کی۔ کبھی کسی کا کوئی اور کام کر دیا اور ہر بار اس بات پر خوشی ہوئی۔ نیز یہ سوچ پیدا ہوئی کہ میں کسی قابل نہیں ،یہ اللہ کی مہربانی ہے جو مجھے یہاں نیکی کا موقع دے رہا ہے۔

5۔۔ عرفات کے دن زوال کے وقت مجهے احساس ہوا کہ وقت بہت محدود ہے ۔ یہ وہ قیمتی وقت ہے جس کو میں کسی طرح کھونا نہیں چاہتی تھی اس دن درجہ حرارت47   تھا۔ حبس اور گرمی شدید تھی۔ کھانے پینے کی بہت سی اشیاء تقسیم کی جا رہی تھیں۔ کھانے پینے کی بہت سی اشیاء اور روزمرہ کے استعمال کی چیزیں درجنوں کے حساب سے لوگوں میں تقسیم کی جا رہی تھیں ۔
لیکن ہم نے اپنے پاس موجود ہلکی پھلکی چیزیں کھا کر خود کو تازہ رکھا اور دل اس بات پر بالکل راضی نہ ہوا کہ اس پر وقت صرف کیا جائے کیوں کہ یا تو وہاں لائنوں میں لگ کر چھینا جھپٹی کر کے وہ سب لیا جاتا، یا دعائیں مانگی جا سکتی تھیں یعنی ایک طرف دنیا کی نعمتیں اور مال و دولت اور دوسری طرف آخرت کے فائدے۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ زندگی کا وقت بہت محدود ہے ۔زندگی کے اس محدود وقت میں یا دنیا کمائی اور بنائی جا سکتی ہے یا آخرت ۔دونوں ایک ساتھ چلانے کی کوشش میں کسی ایک کا نقصان ضرورہو گا۔
حدیث موقوف
عن عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ أَضَرَّ بِالدُّنْيَا وَمَنْ أَرَادَ الدُّنْيَا أَضَرَّ بِالْآخِرَةِ , يَا قَوْمِ فَأَضِرُّوا بِالْفَانِي لِلْبَاقِي"
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "جس نے آخرت کا ارادہ کیا اس نے دنیا کا نقصان کیا اور جس نے دنیا کا ارادہ کیا اس نے آخرت کا نقصان کیا۔اے لوگوں فنا ہو جانے والی شے کا باقی رہ جانے والی کیلئے نقصان کرو۔"
وہاں پر کئی طرح کے لوگ دیکھنے میں آئے کچھ وہ جو صرف دعائیں مانگتے رہے اور اپنے رب کے حضور گڑگڑاتے رہے حتی کہ شام ہوگئی کچھ نے ہلکی پھلکی دعائیں مانگ کر واپس اسی رونق میں جانا پسند کیا۔۔۔۔

6۔ حرم سے واپس آنے کےلئے مجھے دو بار بس تبدیل کرنا پڑتی۔ حرم سے نکل کر بس میں سوار ہونے تک شدید رش کا سامنا کرنا پڑتا،ہر روز نئے سرے سے فیصلہ کرنا پڑتا  کہ کب ہوٹل جایا جائے؟کب حرم سے نکلا جائے۔۔۔ہر روز فیصلے کا نتیجہ مختلف ہوتا جس دن میں نے فیصلہ تقوی(آخرت کی بھلائی)کی بنیاد پر کیا اس دن بہت آسانیاں ملیں اور  جہاں یہ سوچ کر فیصلہ کیا کہ ہوٹل جلدی پہنچ کر آرام کروں گی۔۔۔فون پر گھر والوں سے بات کروں گی تو مجھے ڈھیروں مشکلات اور بری صورت حال سے واسطہ پڑتا(چاہے وہ سڑک پر ٹریفک جام ہو،بس میں تاخیر سے سوار ہونا یا کچھ بھی۔۔۔)اور میں ہر روز یہی سوچتی کہ ہماری زندگی میں اتنی مشکلات اورمقاصد کے حصول میں رکاوٹیں صرف اس وجہ سے ہیں کہ فیصلے تقوٰی کی بنیاد پر نہیں کئے جاتے ۔ چاہے وہ روزمرہ کے معمول کے  کاموں کے حوالے سے ہوں یا زندگی کے بڑے فیصلے۔۔۔۔

جب ہمیں یہ یقین ہو کہ فلاں کام کرنے سے نقصان ہو گا اس کام سے بچنے کے لئے ہم بڑی سے بڑی مشکلات اور پانبدیاں برداشت کر لیتے ہیں۔۔۔حج کےلئے آنے والے لوگوں کا لا علمی کی بناء پر یہ نظریہ کہ سر ننگا کرنے سے احرام کھل جاتا ہے یا ایک بھی بال اگر ٹوٹ گیا تو دم واجب ۔۔۔۔اس طرح کی بہت سی باتوں کا حد درجہ خیال رکھا جاتا اور اپنے آپکو اس کےلیے غیر ضروری مشقت میں ڈالا جاتا صرف اس یقین کی وجہ سے کہ ایسا نہ کرنے سے یقینی طور پر خسارہ اٹھانا پڑے گا۔۔۔عام زندگی میں دین سے دور ہونے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ایمانی لحاظ سے یقین کی دولت سے محروم ہیں۔ نا فرمانیوں اور گناہوں کا جو اثرو انجام اور اسکی جو سزا شریعت نے بتائی ہے ہمیں اسکا علم تو ہے مگر یقین نہیں۔۔۔۔

8۔ ایک احساس جس نے شدت کے ساتھ مجھے اندر سے تکلیف پہنچائی وہ یہ کہ ہم نے اسلام کو صرف عبادات اور عبادات میں بھی چند ظاہری رسوم کو ادا کرنے کی حد تک سمجھ رکھا ہے۔ عبادات کن مقاصد کے لیے ہیں، اللہ تعالی ہمیں کیا سکھانا چاہتا ہے؟ کیا تربیت کرنا چاہتا ہے؟ ہم یہ جاننا اور ان مقاصد کو حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے!! ہمارے روزمرہ کے معمولات اور معاملات  دینی راہنمائی سے خالی ہیں۔اسی لئے ہم وہاں جا کر بھی چند بنیادی اور ظاہری  چیزوں کا خیال کرتے ہیں اس سے آگے نہیں سوچتے کہ اللہ نے کیا تربیت کرنے کے لیے بلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے دین کے بھی ٹکڑے کر دیئے ہیں اور خود ساختہ معیار بنا رکھے ہیں۔ کچھ  معاملات میں ہم حقوق العباد کی پاس داری کا خیال رکھتے ہوئے حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں، کچھ میں عبادات کے ظاہری پہلو پیش نظر رکھتے ہیں۔ مثلا ہم شادی بیاہ،فوتگی ،خوشی اور غمی میں اللہ کی دی ہوئی شریعت کو بھول جاتے ہیں اور صرف لوگوں کو راضی رکھنے کی فکر کرتے ہیں اور بڑے آرام سے یہ جملہ بول دیا جاتا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے لوگ خوش ہوں گے تو اللہ بھی خوش ہو جائے گا۔۔۔

 عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" مخلوق کی اطاعت میں اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کی(جا سکتی)"۔ مسند احمد

مگر یہی حساب اکثر موقع پر الٹ جاتا ہے، حجر اسود کو بوسہ دینا ہو یا نماز کی صف میں جگہ لینا یا مقام ابراہیم اور ریاض الجنہ میں نماز پڑھنا ہو یا ملتزم سے چمٹنا ان سب کاموں میں اپنی ذات سے جو دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے یا دوسرون کی آسانی کس میں ہے اس میں ہم دوسروں کی خوشی  ان کا حق،آسانی اور عزت کی بالکل پروا نہیں کرتے ۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان توازن بھی دین نے ہی سکھایا ہے۔ یہ معیار ہم خود نہیں طے کر سکتے کہ کہاں کیا کرنا ہے؟ ہمیں ہر مرحلے پر دین سے ہی راہنمائی لینی ہے۔ اپنی خواہش نفس کو معبود بنا کر دلائل ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ فائدہ تبھی ہوگا جب ہم ہر کام تقوی کے ساتھ  اور اللہ کو راضی کرنے کے لیےکریں گے۔۔۔۔
افَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ۔)) سورۃ الجاثیۃ:23
۔" پھر کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔ پھر اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے،تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔"

۔
9۔کرین حادثہ اور منٰی کا واقعہ ان دونوں  نے میری زندگی کے لیے بہت بڑا سبق چھوڑا۔۔۔کسی بھی مصیبت یا آزمائش  میں صرف وہی لوگ سبق سیکھتے ہیں جو سیکھنا چاہتے ہیں یا جن کو غوروفکر کی عادت ہوتی ہے باقی سب کے لیےوہ ایک واقعہ،اس کے غیر معمولی حقائق اور معلومات ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا؟ کیا سبب بنا حادثے کا ۔۔۔کون کون اسکی زد میں آیا...مگر کوئی یہ نہیں جاننا چاہتا کہ اس سب کے پیچھے اللہ کی کیا حکمت تھی کہیں اس میں اللہ کا غصہ و ناراضگی پوشیدہ تو نہیں؟؟؟؟

کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں ہم اس شعور سے تہی ہیں کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیئے اور اس صورتحال میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟؟
میں نے وہاں کسی مقامی اور کام کرنے والے ملازمین کو آپس میں اس واقعہ پر گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔ کسی چہرے پر غیر معمولی گھبراہٹ نہ تھی ۔۔کسی نے کوئی سیاسی تبصرہ نہیں کیا ،کوئی معمولی سے معمولی کمینٹ نہیں تھا۔ ہر شخص اس وقت اپنی ذمہ داری کو پہچانتا تھااپنی ڈیوٹی پر معمول  کے مطابق اپنی جگہ پر کام کر رہا تھا جن کی جائے حادثہ پر ڈیوٹی تھی صرف وہ لوگ وہاں موجود تھے۔ کوئی وہاں تماشا دیکھنے نہیں آیا البتہ وہاں بہت سے حاجی اور غیر مقامی تصویریں کھینچنے کے لیے موجود تھے۔۔۔تصویر کی ​حرمت اپنی جگہ مگر کسی زخمی یا مردہ مسلمان بھائی کی تصویریں اس حال میں بنانا کہاں سے جائز اور حلال ہے؟؟؟؟کیا ہم میں سے کوئی اپنے لئے پسند کرے گا کہ ہم اس حال میں زخمی پڑے ہو اوربجائے مدد  کرنے کے ہماری تصویریں بنا کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر ڈالی جائیں اور ہرکوئی ان کو دیکھے۔۔۔

میرا زیادہ تر واسطہ پاکستانیوں سے تھا۔ سعودی عرب میں بھی اور یہاں آکر بھی۔ ان دو واقعات پر ہر شخص نے تبصرے اور سوالات کئےــیہ سوال تو ضرور پوچھا  کہ حادثہ  کے وقت آپ لوگ کہاں تھے ؟؟کیا وہ جگہ آپ لوگوں نے دیکھی ​؟​؟مگر کسی نے بھی یہ سوال نہ کیا "تب دل کی کیا حالت تھی ،اس حادثے نے زندگی میں کیا تبدیلی پیدا کی،کیا موت یاد آئی ،دل میں اللہ کا ڈر اور خوف مزید بڑھا؟؟"
کیوں کہ ہم نے دلوں کو جھنجھوڑنا ہی چھوڑ دیا ہے ہم اپنے دلوں کا جائزہ لینا ہی نہیں چاہتے.


10۔ گناہوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مزید نیکیاں کرنے یا ان کی توفیق ملنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہاں پر موجود حاجیوں کی اکثریت اپنے موبائل پر دوران طواف،عبادت یا اس کے علاوہ  بھی ہر وقت سیلفی یا گروپ فوٹو  میں مصروف نظر آتی تھی۔کیا لاکھوں روپیہ خرچ کر ان گنے چنے دنوں کے قیمتی لمحات کو اس فضول کام میں صرف کرنے آئے ہیں؟؟
تصویر کھینچنے کا کیا مقصد ہے؟۱۔لوگوں کو دکھانا کہ ہم کہاں کہاں گئے اور ایسے ایسے عبادات کیں لیکن یہ بھول گئے کہ اس دین میں نفلی نماز اور عبادات کو چھپ کر کرنے کا ​​​​​​​​​​​​​​​​​​حکم ہے ریاکاری سے کئے ہوئے اعمال پر پانی پھر جاتا ہے ،حکم تو یہ ہے کہ صدقہ بھی دو تو ایسے دو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو(قیامت کےدن وہ شخص عرش کے سائے تلے ہو گا جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ دیا اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی)تو جس شخص کے دل میں عرش کے سائے کی تڑپ ہوگی کیا وہ اس طرح کی جسارت کرے گا ؟؟؟
۲۔یادگار کے طور پر تصویر بنانا : ایسی یادیں تو دل میں جگہ دینے کے قابل  ہیں، یہ ان کھیل تماشے والے آلات کی محتاج نہیں ہیں وہ تو ایسے لمحات ہیں کہ آنکھیں بند کرو تو نظروں کے سامنے وہ مناظر گھومنے لگتے ہیں ۔یادیں جمع کرنے کا یہ طریقہ مناسب ہوتا تو صحابہ کے پاس اس سے بڑے مواقع تھے یادگاریں جمع کرنے کے لیے۔۔۔۔
ہم تو یہاں اللہ کو راضی کرنے،اپنے برے اعمال کا کھاتہ صاف کروانے آئے ہیں ،اپنے دلوں کو تقوی سے بھرنے آئے ہیں، اپنی زندگی کو تبدیل کرنے آئے ہیں۔ جب توجہ اور دھیان فوٹوگرافی پر ہو تو اللہ سے تعلق کب اور کیسے پیدا ہوسکتا ہے!کیسے اللہ کے آگے اپنا کیا دھرا سامنے رکھ کر گڑگڑایا جا سکتا ہے۔ جب کہ حال یہ ہو کہ عمرہ کے لیےحرم کے دروازوں سے داخل ہونے سے پہلے گروپ فوٹو ہو رہا ہو۔۔۔۔۔کیا بیت اللہ وہ گھر نہیں ہے جس کو فتح مکہ کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں اور تصویروں سے پاک کیا تھا؟؟  آج اسی گھر میں قدم قدم پر تصویریں بن رہی ہیں۔۔۔۔

11۔وہاں اپنی ڈیوٹی پر موجود ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی والوں اور سکاؤٹ کو اپنے فرائض سے بڑھ کر حاجیوں کی خدمت کرتے ہوئے پایا گرمی کی شدت اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پانی کی بوتلیں ہاتھ میں لئے ہوئے کھڑے تھے اور اس سے ہر گزرنے والے پر سپرے کر رہے تھے اس منظر نے مجھے یہ احساس دیا  کہ اس گرمی اور مشقت کو اس لیے برداشت کر رہی ہوں کہ میں حج کرنے آئی ہوں اور یہ سیکیورٹی والے اپنی ڈیوٹی سے بڑھ کر اس جھلسا دینے والی گرمی میں ہم سب کا خیال کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ یہ احسان بغیر کسی لوث اور غرض کے کر رہے ہیں اس سب کو وہ بہت خوشی اور مسکراتے چہروں کے ساتھ کر رہے تھے اور میرے دل سے ان کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں۔
ہم خالص اللہ کی رضا کے لیے دوسروں کے کام آکر ،دوسروں کی مشکلیں آسان کرکے،دوسروں کو راحت پہنچا کر ان کی دعائیں کیوں نہیں  سمیٹ سکتے؟؟؟سڑک پر کوئی زخمی ہو یا کسی بھی قسم کی مشکل میں ہو ہم اس وقت اپنی صللاحیتوں کو پہچان کر اپنی استطاعت کے مطابق کام کرنا ہی نہیں جانتے۔ 
12۔ہمین کسی دوسرے شخص کا بےدین ہونا صرف اس وقت تکلیف دہ لگتا ہے جب ضرب ہماری ذات پر پڑ رہی ہو یا اس گناہ میں ہم مبتلا نہ ہو۔ مثلا اکثر لوگ دوران طواف یا رش میں چلتے ہوئے پڑنے والے دھکوں کا تذکرہ کرتے نظر آئیں گے، ہر شخس دوسروں کی بے دینی اور غیر اخلاقی حرکات پر تبصرے کرتا نظر آتا ہے ورنہ دیکھا جائے تو امت مسلمہ بحیثیت ایک مسلمان قوم اور امت ہونے کے ناطے دینی لحاظ سے زوال کا شکار ہے۔
حج سے آنے کے بعد،دوران سفر یا عمومی حالات میں بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ ہم ہر وقت دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ۔۔کہ فلاں شخص ایسے طواف کر رہا تھا ۔۔فلاں لوگ تو یوں نماز پڑھتے ہیں۔۔ فلاں کا لباس ایسا تھا ۔۔فلاں لوگ یوں کھاتے۔۔۔ایسے بیٹھتے ہیں۔۔اس بات سے قطع نظر کہ یہ برائی واقعی موجود ہے یا نہیں ہر وقت دوسروں کی تجزیہ نگاری اور تبصرے کرتے رہتے ہیں۔۔۔
کیا اس کی دلیل صحابہ کرام سے ملتی ہے؟؟؟ان کے حالات پڑھیں تو پتا چلے گا کہ وہاں تو معاملہ ہی اس کے برعکس ہے۔وہ ہر وقت تزکیہ نفس اور محاسبہ پر توجہ دیتے تھے، ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسی گفتگو کی ہو جیسی کسی محفل میں ہم کرتے ہیں اور جن موضوعات پر ہم گفتگو کرتےہیں۔
اسکی ایک مثال یہ ہے
حضرت حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ سے رویت ہے،وہ رسول اللہ ﷺ کے محرروں میں سے تھے، انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا کہ اے حنظلہ آپ کیسے ہیں ؟​میں نے کہا: حنظلہ منافق ہو گیا
 وہ بولے سبحان اللہ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟
 میں نے کہا :جب ہم رسول اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ ہمیں جنت اور جہنم کے بارے میں نصیحت کرتےہیں(ہمارا حال یہ ہوتا)گویا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔پھر جب ہم آپ کے پاس سے لوٹ کر آتے ہیں اور اپنی عورتوں اور کام میں لگ جاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں
 حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بولے:اللہ کی قسم ہمارا حال بھی بالکل ایسا ہی ہے
تو میں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے پاس گئے اور میں نے کہا یا رسول اللہ حنظلہ منافق ہو گیا
رسول اللہ نے پوچھا :تمہارا کیا مطلب ہے ؟
میں نے کہا: جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جنت اور دوزخ سے خبردار کرتے ہیں تو ہماری کیفیت یہ ہوتی ہے، گویا کہ اپنی آنکھوں سے جنت اور جہنم کو دیکھ رہے ہیں مگرجب ہم آپ کے پاس سے لوٹ کر آتے ہیں اور اپنی عورتوں اور کام میں لگ جاتے ہیں تو ہم یہ سب بھول جاتے ہیں
رسول اللہ  نے فرمایا اگر تم اسی حال میں ہمیشہ برقرار رہو جس طرح میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور راستوں میں تم سے مصافحہ کریں۔لیکن اے حنظلہ !ایک ساعت دنیا کا کاروبار اور ایک ساعت یاد پرودگار۔"تین باریہ فرمایا(صحیح مسلم)

13۔ہمیں حج کے دوران کھانا اپنے ہوٹل میں ملتا تھا۔ کھانے کے اوقات مقرر  تھے ہر شخص کو مقرر وقت پر کھانا لینے کے لیے ہوٹل کی لائن میں لگ کر کھانا لینا پڑتا تھا۔ کھانا اچھا اور معیاری ہوتا تھا۔ کبھی سبزی ،کبھی دال اور زیادہ تر گوشت وغیرہ ہوتا تھا۔میں اور میرے گھر والے کھانا لینے کے لیے گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے جاتے تھے کیوں کہ اس موقع پر جو دھکم پیل،لوگوں کی چھینا جھپٹی ،جھوٹ اور دوسری بد اخلاقیاں دیکھنے کو ملتی تھیں، اس کی نسبت بہتر یہی معلوم ہوتا تھا کہ انسان کھانا ہی نہ کھائے اور کھانے کے لیے اگر جانا بھی ہو تو بہت دیر سے جائے۔اگر کسی شخص کو ایک آدمی کا کھانا درکار ہوتا تو ۲ یا ۳ کا کھانا لے لیتا جتنا کھانا ہوتا کھا کر باقی کاضائع کیا جاتا۔ دہی،پانی وغیرہ کے پورے کریٹ لے لیے جاتے تھوڑا سا استعمال کر کے باقی  کا پھینک دیے جاتے، ہر روز ڈھیروں کھانا ضائع پڑا نظر آتا  اور سخت تکلیف ہوتی۔۔۔ مال مفت دل بے رحم۔۔

14۔ان سب سے زیادہ تکلیف دہ میرے لئے ایک ایسا واقعہ تھا  جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہماری تربیت کون کر رہا ہے؟ ہم زندگی کا کیا مقصد رکھتے ہیں؟ ایک رات کھانا تاخیر سے پہنچا۔ اس سے اگلی رات کھانا 2 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچا تو ہوٹل میں بہت سے پاکستانی حاجی احتجاج کرتے ہوئے باہر ہوٹل کے دروازے میں کھڑے ہو گئے جیسے ہی کھانے کا ٹرک پہنچا ، جھگڑا شروع ہوگیا۔ لوگ ٹرک کے آگے کھڑے ہو گئے اور کھانا نیچے اتارنے نہ دیا گیا، بہت زوروشور کے ساتھ جھگڑا جاری رہا بہت سے لوگ کھانا لینے کے انتظار میں کھڑے تھے ۔ کچھ  دیر بعد پاکستانی مکتب اور حج مشن کی گاڑیاں آگئیں۔بہت بحث وتکرارہوئی ،سڑکیں بلاک کرنے کی دھمکیاں دی کئیں،مضحکہ خیز بات یہ کہ وہاں پر بھی میڈیا کواور جیو نیوز کو بلانے کی دھمکیاں۔۔۔۔  
ہمارا ہوٹل ایک ایسی نئی جگہ پر تھا جہاں سے دوسرے ہوٹل کافی فاصلے پر تھے. قریب تھوڑی بہت مقامی آبادی تھی ۔سعودی عرب میں بلا ضرورت باہر نکلنے اور کھڑے ہونے کا رواج نہیں جس طرح ہمارے  یہاں لوگ بلا ضرورت راستوں میں کھڑے اور بیٹھے ہوتے ہیں۔اس غیر معمولی صورت حال کو دیکھ کر وہاں پولیس، بلدیہ اور سیکیورٹی کی گاڑیاں مختلف اوقات میں آتی رہیں۔انہیں حقیقت حال بتانے کے بجاۓ ہمارے حاجی حضرات نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے بلا جھجھک بہت سے جھوٹ بولے اور جھوٹی کہانیاں بنا ڈالیں۔

ہم زندگی کا کیا مقصد رکھتے ہیں؟؟!!ہمارے اخلاق اور ہماری سوچ کتنی گری ہوئی ہے؟ کھانے کے چند نوالوں اور پیسوں کیلئے ہمیں اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرنا پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ میڈیا کو بلانے کی دھمکی دینا اور باہر سڑک پر کھڑے ہو کر ٹریفک جام کرنے کی کوشش کرنا۔۔ایسا کیوں ہوا؟کیوں کہ ہم سارا دن جس ڈبے نما چیز کے آگے گزارتے ہیں اور جن اخبارات کو پڑھا جاتا ہے ان سب کے ذریعے سے ہماری یہ تربیت ہوئی اور لا شعوری طور پر ہوئی ہے کیونکہ اس  کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارا جاتا ہے، ہم عام زندگی میں وہی کریں گے جو دیکھیں گے اور جو سنیں گے ہمارا دماغ ویسا ہی ردعمل دینے پر مجبور کرے گا جو ہم نے اس کے لا شعور میں بھرا ہوتا ہے۔
حرم میں کوئی چیز بانٹی جا رہی ہو یا حرم سے باہر ۔غرض کوئی بھی دنیوی چیز ہو ہم اس کے حصول کے لیے ایسے لپکتے ہیں گویا کہ عرش کے خزانے سے چیزیں مل رہی ہو اسکو لوٹنے کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دینا تو معمول ہے۔ضرورت ہو یا نہ ہو اپنے حصے سے کئی گنا زیادہ چیزیں لی جاتیں بعد میں چاہے انہیں کوڑےدان میں پھینک دیا جائے۔ افسوس کیا ہم وہاں یہ سب جمع کرنے آئے ہیں یا اپنے اعمال نامے کو نیکیوں سے بھرنے آئے ہیں؟ کیا ہمارے صحابہ اور اسلاف یہ کرتے تھے؟ کیا وہ لینے والوں میں شامل تھے؟کیا دنیا سامنے آ جانے پر یوں لپکتے تھے یا اسکے برعکس کوئی اور رویہ تھا؟اس واقعہ پر نظر ڈالئے؛
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے  جلیل القدر صحابی حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو حمص کا گورنر مقر کیا، اتنا بڑا عہدہ ملنے کے باوجود حال یہ تھا کہ کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا۔ جب امیر المومنین نے یہ حال سنا تو ایک وفد جو کہ حمص واپس جا رہا تھا، انکے ہاتھ ہزار دینار بھیجے اور کہا کہ انھیں میرا سلام کہنا اور کہنا کہ  امیرالمومنین نے یہ تھیلی تمہارے لئے بھیجی ہے تاکہ تم اس سے اپنی ضروریات پوری کر سکو۔
یہ وفد حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے ہاں تھیلی لے کر آیا ۔ آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں، تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے:
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
گویا کہ بپتا نازل ہو گئی یا کوئی نا خوشگوارواقعہ پیش آگیا۔یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرا گئی اور کہنے لگی::
میرے سر کے تاج کیا سانحہ ہو گیا! کیا امیر المومنین وفات پا گئے؟
آپ نے فرمایا:نہیں بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے۔
اس نے پوچھا:کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانوں کو کوئی صدمہ پہنچا؟
آپ نے فرمایا:اس سے بھی بڑی بات۔
اس نے عرض کی:بھلا اس سے بڑی کیا بات ہو سکتی ہے؟
فرمایا:میرے ہاں دنیا در آئی تاکہ میری آخرت بگاڑ دے۔میرے گھر فتنہ ابھر آیا ہے۔
اس نے عرض کی : کیوں نہ اس فتنہ سے گلو خلاصی کرلیں۔اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔
انہوں نے فرمایا:کیا اس سلسلہ میں میری مدد  کرو گی؟
عرض کی:جی ہاں،کیوں نہیں۔
آپ نے دینار متعد  تھیلیوں میں بند کئے اورغریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے۔

15۔ اللہ کی توفیق سے منٰی میں قیام کے دوران ۸ ذی الحج کو اپنے کیمپ کے لوگوں کو دو بار مختلف موضوعات پر درس دئیے۔ یہ بھی کسی اور کی محنت اور تحریک  دلانے کا نتیجہ تھا۔اس نے مجھے بخار اور نزلہ کی تکلیف میں اس کام کیلئے آمادہ کر لیا اور حالات ایسے پیدا کر دئیے کہ میں مجبور ہو گئی کہ وہاں پر موجود لوگوں کو دینی راہنمائی دوں۔بظاہر ایسے لگتا تھا کہ ایک جملہ بھی بولوں گی تو جسم اور گلا تھک کر کہیں مزید طبیعت خراب نہ ہو جائے مگر اس رب سے مدد  مانگ کر کبھی مایوس نہ ہوئی۔
وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
ترجمہ:اے میرے رب میں تجھے پکار کر(دعا مانگ کر) کبھی محروم نہیں رہا۔(سورۃ مریم:03)
تو ایک چیز جس نے مجهے اندر سے شدت کے ساتھ جھنجھوڑا وہ یہ کہ ہم بہت جلدی ہمت ہار جاتے ہیں۔ اللہ سے مدد مانگے بغیر ہی فیصلے کر لیتے ہیں ۔ ہمیں شیطان اور نفس معاملات کو اس طرح سے دکھاتا ہے کہ گویا ناممکن ہے۔ ہم نیکیوں کی توفیق مانگتے ہی نہیں، یوں اپنے نفس کی کمزوریوں اور شیطان کے بہکانے کی وجہ سے بہت سی نیکیوں اور دین پر عمل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور شیطان کامیاب ہو جاتا ہے۔
11،12ذی الحج کومزید دو بار درس منعقد کیا گیا  جس میں ایک اس حوالے سے تھا کہ ہر شخص نے اپنے سفر حج سے جو سیکھا وہ بیان کرنا تھا۔ ایک لڑکی نے اپنا تاثر پیش کیا جو کہ بہت اچھا لگا کہ وہاں عورت خود کو بہت محفوظ سمجھتی ہے۔ کوئی وہاں پر گھور گھور کر نہیں دیکھتا۔ کوئی قریب سے گانے گاتا ہوا نہیں گزرتا۔وہاں کی عورت خود عزت کرواتی ہے وہ اس حلیے میں باہر سڑکوں اور بازاروں میں نہیں نکلتی کہ کوئی مرد اسے دیکھے اگر دیکھے بھی تو کیا نظر آئے گا نہ چہرہ نہ ہاتھ نہ رنگ برنگ کے لباس اور گاون ۔۔۔ مجھے ان سب کو دیکھ کر اپنا پردہ درست کرنے کا خیال پیدا ہوا کہ کہیں میرے حجاب کو حجاب پہنانے کی ضرورت تو نہیں کیونکہ اس میں میری ہی بہتری ہے ۔اللہ کا کوئی بھی حکم اور فیصلہ حکمت سے خالی نہیں اس پر عمل کرنے میں میرا ہی فائدہ ہے اللہ تو بے نیاز ہے۔
اللہ تعا لی سے دعا ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ آخرت کی فکر کرنے اور دنیا کے پھندوں میں پھنسنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے!(آمین)

bridal shower اسلام کی نظر میں



بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ

“Bridal  shower”
اسلام کی نظر میں


تحریر
سارہ اقبال






اسلام ایک مذہب نہیں دین ہے۔مذہب چند رسومات ادا کرکے پورا ہو جاتا ہے ہر معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا ۔عیسائیت ایک مذہب ہے عیسائی اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے۔گرجے میں ہفتہ وار حاضری کے بعد وہ آزاد ہے جو مرضی کرے یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔اس کے برعکس اسلام مذہب نہیں دین ہے۔یہ محض جمعہ کے دن مسجد میں حاضری دینے سے مکمل نہیں ہوتا نہ ہی روزہ اور حج تک محدود ہے کہ باقی زندگی میں ہم تفریح اور خوشی کے نام پر جو مرضی کریں ۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو میں ہم سے اطاعت اور ڈسپلن کا ظلبگار ہے۔یہ ایسا مکمل طرز زندگی ہے  جو آپ کو سونے جاگنے ،کھانے پینے جیسے ذاتی معاملات سے لے کر  آپ کے دفاتر،بازاروں،معیشت اور قوانین تک میں مکمل راہنمائی دیتا ہے۔خوشیاں منانے اور غم سہنے جیسے معاملے میں بھی  ضابطے متعین کرتا ہے۔
ہر انسان تفریح اور خوشی کا متلاشی ہے۔تفریح کا مطلب ہے دل کو فرحت بخشنا۔ یہ تفریح انسانی جذبات کی تجدید کے لئے ہوتی ہے۔ہر انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ خوش ہو مگر خوشی کے اظہار میں  بھی حدود ہونی چاہئے۔اسلام نےنہ  صرف خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے بلکہ خوش ہونے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے کہ خوشیوں  کے مواقع پر کون سے کام ضروری ہیں اور محض تفریح کے لئے  کونسی چیزیں کی جاسکتی ہیں۔اسلام میں مکمل راہنمائی موجود ہے کہ خوشی کے موقع پر بھیٍ اپنے مقصد زندگی سے غافل نہیں  ہونا اور اپنے اسلامی تشخص  کو برقرار رکھنا ہے
خوشی کا تصور:خوشی کے احساس کا تعلق ہمارے اپنے نظریہ سے ہوتا ہےجس بات یا کام کے بارے میں ہمارا پختہ نظریہ اور سوچ ہو کہ ایسا کر کے خوشی منائی جاتی ہے تو اس کے بغیر خوشی واقعی ادھوری لگے گی۔
اس بات کی حقیقت اس مثال سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی شخص نظریاتی و اخلاقی تبدیلی کے بعد کوئی غلط کام مثلا گانا سننا چھوڑ چکا ہو پہلے وہ اس سے خوشی محسوس کرتا تھا لیکن سوچ بدل جانے سے اس کو اس کام سے بسا اوقات وحشت ہونے لگتی ہے۔گناہ سے بیزاری،رب کی ناراضگی،انجام کا خوف ایسے احساسات اس پر غالب ہونے لگتے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی پرنے گناہ میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔پہلے وہ اس کے بغیر بے قرار ہوتا تھا اب اس کو عرصہ عرصہ خیال نہیں آتا یہ سب سوچ کی بات ہے۔  
شادی ایک ایسی سماجی تقریب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوشی  کا موقع ہے۔اسلام میں شادی (نکاح) کا طریقہ بہت آسان ہے جس میں محض نکاح اور ولیمہ ہے جبکہ موجودہ معاشرے میں اسے مشکل ترین تقریب بنا دیا گیا ہےبات طے کرنے سے لے کر قدم قدم پر بے شمار رسومات ادا کی جاتی ہیں۔مثلا منگنی، مایوں،مہندی ،ڈھولکی،بارات ،مکلاوہ وغیرہ ان سب کے شامل ہو جانے کی وجہ سے شادی کئی کئی دنوں پر محیط ہو جاتی ہے۔ان رسومات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کا تعلق ہندو مذہب کی شادی کی رسومات سے ہے اور کچھ لوازمات مغربی معاشرے کے بھی شامل کر لئے گئے ہیں۔دور حاضر میں شادی کی رسومات میں ایک اور( دن کی )تقریب کا اضافہ کر لیا گیا ہے۔جو برائیڈل شاور کے نام سے معروف ہے۔
برائیڈل شاور ایک ایسی پارٹی ہے جو شادی سے کچھ ہفتے پہلے دلہن کی سہیلیاں دلہن کو تحائف دینے کے لیے منعقد کرتی ہے کہ جو تحائف انہوں نے  دلہن کو شادی پر دینے ہیں وہ اس پارٹی میں دیتی ہیں۔ اس تقریب میں میزبانی کے فرائض دلہن کے گھر والے نہیں بلکہ دلہن کی قریبی دوست یا ایک سے زیادہ دوستیں مل کر ادا کرتی ہیں۔اس تقریب میں مختلف قسم کی کھانے پینے کی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔خاص طور پر ایسے کپ کیک رکھے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کیک پر دوست کا نام لکھا ہوتا ہے۔ مستقبل کی دلہن سے اس کے ہونے والے شوہر کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اور بیہودہ  مذاْق کئے جاتے ہیں۔ موسیقی،سالگرہ کی طرح سجاوٹ اور اہتمام کیا جاتا ہے۔مستقبل کی اس دلہن کو ایک sashپہنائی جاتی ہے جس پرebride to b لکھا ہوتا ہے۔یہ تہوار ابھی نیا نیا ہمارے ملک میں داخل ہوا ہے جو کہ خوشحال گھرانے کے لوگوں میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
ا اس رواج کا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ سولہویں صدی میں یہ رواج جہیز دینے کے متبادل کے طور پر شروع ہوا کہ دلہن کی سہیلیاں اور خاندان والے جہیز کی تیاری میں مدد کے طور پر مختلف طرح کے چھوٹے بڑے تحائف دیتے تھے۔جس سے اس کا جہیز تیار ہونے میں مدد ملتی تھی۔اس کے آغاز کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک  ڈچ لڑکی  کارخانے میں ملازمت کرنے والے لڑکے سے محبت میں مبتلا ہوگئی ۔جب لڑکی نے اپنے والد کے سامنے اس لڑکے سے شادی کے متعلق اظہار کیا توباپ نے انکار کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو وہ اس کو جہیز نہیں دے گا۔جب گاؤں کے لوگوں اور لڑکی کی سہیلیوں کولڑکا اور لڑکی کی  اس محبت کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے لڑکی کے لیے جہیز تیار کرنے کے بارے میں سوچا مگر کوئی ایک فرد تنہا یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ لہذاٰ دلہن کی سہیلیوں اور کچھ اور لوگوں نے مل کر بہت سا سامان تحفے کے طور پر دیا۔آہستہ آہستہ یہ رسم بن گئی اور باقاعدہ رواج کی شکل پا گئی۔انیسویں صدی میں یہ امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک میں بھی پھیلنے لگا اور آج یہ کچھ اور مغربی ممالک میں بھی عام ہیں اور آہستہ آہستہ ہمارے ملک کے لوگ بھی ان کی نقالی میں اس رواج کو اپنا رہے ہیں ۔
اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسے مواقع پر  ہمارے ہاں سارے کھیل تماشے یہ کہہ کر کئے جاتے ہیں کہ یہ سب تو ہمارے کلچر  کا حصہ ہے اور اسلام کا کلچرسے کیا تعلق ہے!!؟اسلام کا ہر چیز سے تعلق ہے ہر چیز کے بارے میں راہنمائی دیتا ہے اگر ثقافت میں ایسی چیزیں ہو جن کا تعلق غیر مسلموں کی عبادات،ان کے عقائد یا اسی قسم کی دوسری چیزوں سے ہو تو شریعت نے  ان سے منع کیا ہے۔
غیر مسلم اقوام سے یوں پے در پے رسومات امپورٹ کرنے میں درج ذیل قباحتیں ہیں:
1;قوم کفار کی مشابہت کرنے والے کا شمار نبی کے فرمان کے مطابق انہی میں ہو گا اور قیامت کے دن انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا
2:شادی میں تاخیر اور دشواری اور اس کے برعکس زنا اور دوسری برائیاں معاشرے میں تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔
3.اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہونے کی وجہ سے وقتی خوشی کا انجام گلے شکوؤں اور خاندانی رنجشوں کی صورت میں ہوتا ہے۔
نبْی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اس کا شمار انہیں میں ہوگا(سنن ابی داؤد4031)

تشبہ سے مراد دوسری قوم کی مشابہت،حلیہ،رسم و رواج جو ان کے ہاں مروج ہو اختیار کرنا ہے۔مشابہت دراصل ظاہری اثرات کی حامل نہیں بلکہ اس کے اثرات لازما دل پر ہوتے ہیں۔آپ کسی بچے کو army dress پہنا دیجیئے تو وہ فورا active ہو جائے گا ان کپڑوں میں وہ آپ کو ڈھیلا ڈھالا نہیں نظر آئے گا۔
مشابہت سے بچانے کے لئے نبی  نے متعدد مقامات پر احکامات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا
خَالِفُوا المُشْرِكِين : مشرکین کی مخالفت کروَ
خَالِفُوا الْيَهُود: یہود کی مخالفت کرو
حضرت عبداللہ بن عمرو ضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو مشرکین کے درمیان رہتا اور ان کی عید اور تہوار مناتا ہے اور ان کی صورت اختیار کرتا ہے اور مرتا ہے تو قیامت کے دن انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گاـ
حضرت عبد اللہ بن عمرو نے مشرکین کے درمیان رہنے کی بات شاید اس لئے فرمائی تھی  کہ وہ یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ مسلمان اپنے ممالک میں رہتے بستے بھی کافروں کے تہوار اور ان کے رواج اپنا سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص ان رسوم و رواج کو اپناتے ہوئے یہ کہے کہ ہم ان کی نقل میں تھوڑی کر رہے ہیں یا ہم اس مذہبی عقیدے یا اس سوچ کے تحت تھوڑی کر رہے ہیں ہم تو رواجا کررہے ہیں۔۔۔اس کے جواب میں شیخ صالح عثیمین فرماتے ہیں۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہماری نیت /ارادہ مشابہت اختیار کرنا نہیں تو ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ مشابہت میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس لئے کہ مشابہت یہ ہے کہ شکل و صورت(ظاہری ہیئت) میں مشابہہ ہونا،اگر مشابہہ ہو جائے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے نیت کی تھی یا نہیں۔اس لئے اگر آپ نے نیت کی تھی تو یہ زیادہ بڑے خطرے کی بات ہے کیونکہ آپ نے ایسا ان سے محبت اور ان کی تعظیم و تکریم کی بنا پر کیااس لئے ہم ہر ایک کو مشابہت سے منع کرتے ہیں چاہے کوئی ارادتا کرے یا بغیر نیت کے کیونکہ نیت باطنی عمل ہے اور اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں اورمشابہت ظاہری چیز ہے اس لئے اس کے ظاہری ہونے کی بنا پر اس سے منع کیا جاتا ہے (الشرح الممتع:196-195)
دراصل تہوار اور رسومات کسی قوم کی شناخت اور تشخص ہوتے ہیں۔مسلمان کی اپنی ایک واضح پہچان اور شناخت ہے۔غیرمسلموں کو اگر دیکھا جائے تو وہ اپنے اس تشخص کے بارے میں بہت usconscio ہوتے ہیں۔وہ بھرپور طریقے سے اپنے تہوار مناتے اور رسومات کو پورا کرتے ہیں  دوسرے مذاہب کی چیزوں کو اختیار نہیں کرتے ۔کبھی کسی ہندو،سکھ ،عیسائی یا یہودی نے بکرا عید پر بکرے قربان نہیں ذبح کئے،نہ ہی رمضان کے روزے رکھے نہ ہی کسیاور رسم یا رواج کو اپنایا۔مگر ہم مسلمان بڑی خوشی سے ان کے تہوار مناتے اور ان کے رواجوں کو اپناتے ہیں۔
تاہم یہ بات کسی پر جبرا مسلط نہیں کی جا سکتی بلکہ اندر سے اسلام کے لیے احساس کمتری اور معذرت خواہی کے وائرس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ہم مسلمان ہیں۔۔۔ہماری تہذیب آسمانی اور آفاقی ہے۔اس رحمٰن کی عطاکردہ ہے جو اس کائنات کا مالک ہے۔اس تہزیب کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے حضرت جبرائیل کے ذریعے اتارا۔
جو حیثیت ایک پیغمبر کی اپنی قوم میں ہوتی ہے وہی حیثیت امت مسلمہ کی باقی اقوام میں ہے۔اگر ہماری اتنی برتر حیثیت ہے تو ہم ان کے رواج کیوں اپناتے ہیں۔دراصل ہم بہت سے کام بھیڑچال کے تحت کر رہے ہوتے ہیں بغیر ذہن پر زور ڈالے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں!! یہ کھیل تماشے ہم دوسری تہذیبوں کو دیکھ کر adopt کرتے ہیں ۔اس وقت ہم وہ بنیادی فرق بھول جاتے ہیں جو کفر اور اسلام کا زندگی کے تصور کے بارے میں ہے۔کافر کے لیے ساری عیش و عشرت کا مقام یہ دنیا ہے اس لئے اس نے ہر مزہ اور عیش یہیں تلاش کرنا ہے۔وہ ہر چیز میں fun thrillاور entertainment تلاش کرتا ہے مگر اب یہ بخار امت مسلمہ کے نوجوانوں میں بھی منتقل ہو چکا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے fun اور entertainment  کے نام پر ہر نئی چیز کو adopt کیا جاتا ہے۔۔ مگر جس شخص کو امتحان کی جوابدہی کا خیال زیادہ ہو گا اس کا دھیان کم سے کم ان کھیل تماشوں میں ہو گا(اس کو سمجھنے کے لئے دنیا کے امتحان کی سادہ سی مثال بھی کافی ہے)
کیونکہ ایک بندہ مومن ہرکام کرتے وقت قیامت کے دن کے سوال جواب کو مد نظر رکهتا ہے وه بے سوچے سمجهے کوئی کام نہیں کرتا کیونکہ نبی نے فرمایا تها
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِم
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابن آدم کے قدم قیامت کے روز اس وقت تک نہیں ہلیں گے اپنے رب کے ۔۔جب تک ان پانچ سوالوں کا جواب نہیں دے گا:
1.عمر کس کام میں گزاری
2.جوانی کس کام میں لگائی
3.مال کہاں سے کمایا
4.اور کہاں خرچ کیا
5.علم جو حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیاَ
اس لئے بندہ مومن جب خوشی مناتا ہے تو اس وقت بھی رب کریم کے احکامات اور فرامین کے زیرسایہ رہنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے رب تعالیٰ ہی ناراض ہو جائے۔
ہم  شادی جیسے  خوشی کےموقع پر جن رسوم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں ان پر بے پناہ وقت اور دولت لوٹائی جاتی ہے۔ یہ وہ سب رسومات ہیں جن میں سے کسی ایک کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے ۔ہم میں سے بہت سے لوگ ان رسومات کو پورا کرنے کے لیے بعض اوقات قرض کا بوجھ اٹھاتے ہیں اگر بالفرض قرض نہ بھی ہواور ہماری اپنی ہی کمائی ہوئی دولت ہو  تو بھی نعمتوں کی جوابدہی تو ہونی ہے۔
 ہلہ گلہ ،رونق میلہ میں بظاہر انسان انجوائے کرتا ہے مگر دیکھا جائے تو ہر خاندان میں تعلقات کی کشیدگی جھگڑوں اور دیگر کئی برائیوں کی بنیاد بھی ایسے ہی معاملات ہوتے ہیں ویسے بھی جن معاملات میں اللہ کی رحمت غائب اور شیطان کی نحوست شامل حال ہو گی تو ان کا انجام بخیر کیسے ہو سکتا ہے؟؟  توجائزہ لیجیئے ان رسموں کو پورا کرنا اور ان پر ڈھیروں پیسہ لگانا آئندہ زندگی پر کتنے خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے؟نو بیاہتا جوڑے کی زندگی پر اس سب کے کتنے مثبت اثرات ہوتے ہیں؟
جبکہ نبی نے تو فرمایا تھا:
إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً
بے شک وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت ہے جو کم خرچ اور آسان ہو۔"(مسند احمد:24529
معاشرے میں مروجہ رسوم و رواج کے خلاف جا کر کام کرنا بلاشبہ مہنگا سودا ہے جس میں اپنے نفس اور لوگوں کی مخالفت مول لینی پڑتی ہے مگر شریعت کی خلاف ورزی ،اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی مول لینا یہ زیادہ بڑا اور زیادہ مہنگا سودا ہے۔جس میں دنیا اور آخرت دونوں کی بربادی ہے۔
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یہ احتمال بھی ممکن ہے  کہ جو لوگ اس رسم کو نہیں جانتے وہ اس کے بارے میں جان جائیں گے۔مگر یہ اس لئے ضروری ہے کہ کسی بیماری کے علاج کی نسبت اس سے بچاؤ آسان ہے اس سے بچاؤ کے لیے اس بارے میں آگاہی ہونا ضروری ہے کیونکہ بیماری کا حملہ واقع ہو جانے کے بعد بیماری سے لڑنا  اور نجات حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔اسی طرح سے ان رسوم و رواج کے بارے میں بھی پہلے سے اگاہی ہونا ضروری ہے کیونکہ آہستہ آہستہ یہ پھیلتے ہیں اور اس کے بعد ہماری زندگی میں اس طرح سے شامل ہوتے ہیں کہ ہماری زندگی اور ہماری تقریبات کا لازمی جزو بن جاتے ہیں اور پھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ رسومات اور رواج ہمارے اپنے نہیں ۔جیسا کہ شادی پر کی جانے والی رسومات میں ،منگنی،مہندی مایوں،بارات،دودھ پلائی،راستہ روکائی،جوتا چھپائی وغیرہ ۔آج اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ یہ شائبہ بھی نہیں گزرتا کہ یہ ہمارے اپنے نہیں بلکہ یہ تو سب ہندوانہ تہوار تھے۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تودنیا کے معاملات میں تو ہم اپنے آپ کو ہلکان کرتے  ہیں اپنی ڈھیروں energies اس میں لگاتے ہیں۔میچنگ کپڑے ،گھروں کی سجاوٹ ،رنگ رنگ کے کھانوں میں محنت اور اس میں مین میخ بے انتہا۔۔۔لیکن دین کے معاملے میں فرائض ،واجبات،عقائد،روایات،تہذیب ۔۔۔ سب یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ان سے کیا فرق پڑتا ہے۔فرق تو پھر orange carpet کے ساتھ گرین صوفوں اور لال پردوں سے بھی نہیں پڑنا چاہیے۔گرین سوٹ کے ساتھ orange lipstick سے بھی نہیں پڑنا چاہیے۔
۔ہم دن میں کئی مرتبہ سورۃ فاتحہ میں اپنے رب سے دعا مانگتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم (ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے) اور اسی راستے کی وضاحت اللہ نے خود ہی کردی ہے کہ یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں جو مغضوب اور ضالین (یہود اور نصاریٰ)ہیں  یعنی ان کے طریقوں پر چلنے سے بچنے کے لئے ہر نماز میں  دعائیں مانگتے ہیں  مگر عملی زندگی میں اس کے برعکس چل رہے ہیں
ہمارے کرنے کا اصلا کام یہ ہے کہ اتنے واضح احکام اور تنبیہات کے بعد ہم اپنے رسم و رواج اور فنکشنز پر نظر ڈالیں جہاں کہیں وہ خوشیاں منائی جا رہی ہو جو ہماری اپنی نہیں انہیں نکال باہر کریں۔راپنی زندگی کے ہر پہلو میں  اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر اس کے مطابق زندگی گزاری جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی برکت شامل حال ہو اور خیر وبھلائیاں سمیٹ سکیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا مال جائز طریقے سے کمانے اور مباح امور پر ہی خرچ کرنے کی توفیق دے۔
وما توفیقی الا باللہ