Saturday, 17 September 2016

bridal shower اسلام کی نظر میں



بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ

“Bridal  shower”
اسلام کی نظر میں


تحریر
سارہ اقبال






اسلام ایک مذہب نہیں دین ہے۔مذہب چند رسومات ادا کرکے پورا ہو جاتا ہے ہر معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا ۔عیسائیت ایک مذہب ہے عیسائی اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے۔گرجے میں ہفتہ وار حاضری کے بعد وہ آزاد ہے جو مرضی کرے یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔اس کے برعکس اسلام مذہب نہیں دین ہے۔یہ محض جمعہ کے دن مسجد میں حاضری دینے سے مکمل نہیں ہوتا نہ ہی روزہ اور حج تک محدود ہے کہ باقی زندگی میں ہم تفریح اور خوشی کے نام پر جو مرضی کریں ۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو میں ہم سے اطاعت اور ڈسپلن کا ظلبگار ہے۔یہ ایسا مکمل طرز زندگی ہے  جو آپ کو سونے جاگنے ،کھانے پینے جیسے ذاتی معاملات سے لے کر  آپ کے دفاتر،بازاروں،معیشت اور قوانین تک میں مکمل راہنمائی دیتا ہے۔خوشیاں منانے اور غم سہنے جیسے معاملے میں بھی  ضابطے متعین کرتا ہے۔
ہر انسان تفریح اور خوشی کا متلاشی ہے۔تفریح کا مطلب ہے دل کو فرحت بخشنا۔ یہ تفریح انسانی جذبات کی تجدید کے لئے ہوتی ہے۔ہر انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ خوش ہو مگر خوشی کے اظہار میں  بھی حدود ہونی چاہئے۔اسلام نےنہ  صرف خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے بلکہ خوش ہونے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے کہ خوشیوں  کے مواقع پر کون سے کام ضروری ہیں اور محض تفریح کے لئے  کونسی چیزیں کی جاسکتی ہیں۔اسلام میں مکمل راہنمائی موجود ہے کہ خوشی کے موقع پر بھیٍ اپنے مقصد زندگی سے غافل نہیں  ہونا اور اپنے اسلامی تشخص  کو برقرار رکھنا ہے
خوشی کا تصور:خوشی کے احساس کا تعلق ہمارے اپنے نظریہ سے ہوتا ہےجس بات یا کام کے بارے میں ہمارا پختہ نظریہ اور سوچ ہو کہ ایسا کر کے خوشی منائی جاتی ہے تو اس کے بغیر خوشی واقعی ادھوری لگے گی۔
اس بات کی حقیقت اس مثال سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی شخص نظریاتی و اخلاقی تبدیلی کے بعد کوئی غلط کام مثلا گانا سننا چھوڑ چکا ہو پہلے وہ اس سے خوشی محسوس کرتا تھا لیکن سوچ بدل جانے سے اس کو اس کام سے بسا اوقات وحشت ہونے لگتی ہے۔گناہ سے بیزاری،رب کی ناراضگی،انجام کا خوف ایسے احساسات اس پر غالب ہونے لگتے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی پرنے گناہ میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔پہلے وہ اس کے بغیر بے قرار ہوتا تھا اب اس کو عرصہ عرصہ خیال نہیں آتا یہ سب سوچ کی بات ہے۔  
شادی ایک ایسی سماجی تقریب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوشی  کا موقع ہے۔اسلام میں شادی (نکاح) کا طریقہ بہت آسان ہے جس میں محض نکاح اور ولیمہ ہے جبکہ موجودہ معاشرے میں اسے مشکل ترین تقریب بنا دیا گیا ہےبات طے کرنے سے لے کر قدم قدم پر بے شمار رسومات ادا کی جاتی ہیں۔مثلا منگنی، مایوں،مہندی ،ڈھولکی،بارات ،مکلاوہ وغیرہ ان سب کے شامل ہو جانے کی وجہ سے شادی کئی کئی دنوں پر محیط ہو جاتی ہے۔ان رسومات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کا تعلق ہندو مذہب کی شادی کی رسومات سے ہے اور کچھ لوازمات مغربی معاشرے کے بھی شامل کر لئے گئے ہیں۔دور حاضر میں شادی کی رسومات میں ایک اور( دن کی )تقریب کا اضافہ کر لیا گیا ہے۔جو برائیڈل شاور کے نام سے معروف ہے۔
برائیڈل شاور ایک ایسی پارٹی ہے جو شادی سے کچھ ہفتے پہلے دلہن کی سہیلیاں دلہن کو تحائف دینے کے لیے منعقد کرتی ہے کہ جو تحائف انہوں نے  دلہن کو شادی پر دینے ہیں وہ اس پارٹی میں دیتی ہیں۔ اس تقریب میں میزبانی کے فرائض دلہن کے گھر والے نہیں بلکہ دلہن کی قریبی دوست یا ایک سے زیادہ دوستیں مل کر ادا کرتی ہیں۔اس تقریب میں مختلف قسم کی کھانے پینے کی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔خاص طور پر ایسے کپ کیک رکھے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کیک پر دوست کا نام لکھا ہوتا ہے۔ مستقبل کی دلہن سے اس کے ہونے والے شوہر کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اور بیہودہ  مذاْق کئے جاتے ہیں۔ موسیقی،سالگرہ کی طرح سجاوٹ اور اہتمام کیا جاتا ہے۔مستقبل کی اس دلہن کو ایک sashپہنائی جاتی ہے جس پرebride to b لکھا ہوتا ہے۔یہ تہوار ابھی نیا نیا ہمارے ملک میں داخل ہوا ہے جو کہ خوشحال گھرانے کے لوگوں میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
ا اس رواج کا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ سولہویں صدی میں یہ رواج جہیز دینے کے متبادل کے طور پر شروع ہوا کہ دلہن کی سہیلیاں اور خاندان والے جہیز کی تیاری میں مدد کے طور پر مختلف طرح کے چھوٹے بڑے تحائف دیتے تھے۔جس سے اس کا جہیز تیار ہونے میں مدد ملتی تھی۔اس کے آغاز کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک  ڈچ لڑکی  کارخانے میں ملازمت کرنے والے لڑکے سے محبت میں مبتلا ہوگئی ۔جب لڑکی نے اپنے والد کے سامنے اس لڑکے سے شادی کے متعلق اظہار کیا توباپ نے انکار کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو وہ اس کو جہیز نہیں دے گا۔جب گاؤں کے لوگوں اور لڑکی کی سہیلیوں کولڑکا اور لڑکی کی  اس محبت کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے لڑکی کے لیے جہیز تیار کرنے کے بارے میں سوچا مگر کوئی ایک فرد تنہا یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ لہذاٰ دلہن کی سہیلیوں اور کچھ اور لوگوں نے مل کر بہت سا سامان تحفے کے طور پر دیا۔آہستہ آہستہ یہ رسم بن گئی اور باقاعدہ رواج کی شکل پا گئی۔انیسویں صدی میں یہ امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک میں بھی پھیلنے لگا اور آج یہ کچھ اور مغربی ممالک میں بھی عام ہیں اور آہستہ آہستہ ہمارے ملک کے لوگ بھی ان کی نقالی میں اس رواج کو اپنا رہے ہیں ۔
اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسے مواقع پر  ہمارے ہاں سارے کھیل تماشے یہ کہہ کر کئے جاتے ہیں کہ یہ سب تو ہمارے کلچر  کا حصہ ہے اور اسلام کا کلچرسے کیا تعلق ہے!!؟اسلام کا ہر چیز سے تعلق ہے ہر چیز کے بارے میں راہنمائی دیتا ہے اگر ثقافت میں ایسی چیزیں ہو جن کا تعلق غیر مسلموں کی عبادات،ان کے عقائد یا اسی قسم کی دوسری چیزوں سے ہو تو شریعت نے  ان سے منع کیا ہے۔
غیر مسلم اقوام سے یوں پے در پے رسومات امپورٹ کرنے میں درج ذیل قباحتیں ہیں:
1;قوم کفار کی مشابہت کرنے والے کا شمار نبی کے فرمان کے مطابق انہی میں ہو گا اور قیامت کے دن انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا
2:شادی میں تاخیر اور دشواری اور اس کے برعکس زنا اور دوسری برائیاں معاشرے میں تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔
3.اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہونے کی وجہ سے وقتی خوشی کا انجام گلے شکوؤں اور خاندانی رنجشوں کی صورت میں ہوتا ہے۔
نبْی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اس کا شمار انہیں میں ہوگا(سنن ابی داؤد4031)

تشبہ سے مراد دوسری قوم کی مشابہت،حلیہ،رسم و رواج جو ان کے ہاں مروج ہو اختیار کرنا ہے۔مشابہت دراصل ظاہری اثرات کی حامل نہیں بلکہ اس کے اثرات لازما دل پر ہوتے ہیں۔آپ کسی بچے کو army dress پہنا دیجیئے تو وہ فورا active ہو جائے گا ان کپڑوں میں وہ آپ کو ڈھیلا ڈھالا نہیں نظر آئے گا۔
مشابہت سے بچانے کے لئے نبی  نے متعدد مقامات پر احکامات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا
خَالِفُوا المُشْرِكِين : مشرکین کی مخالفت کروَ
خَالِفُوا الْيَهُود: یہود کی مخالفت کرو
حضرت عبداللہ بن عمرو ضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو مشرکین کے درمیان رہتا اور ان کی عید اور تہوار مناتا ہے اور ان کی صورت اختیار کرتا ہے اور مرتا ہے تو قیامت کے دن انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گاـ
حضرت عبد اللہ بن عمرو نے مشرکین کے درمیان رہنے کی بات شاید اس لئے فرمائی تھی  کہ وہ یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ مسلمان اپنے ممالک میں رہتے بستے بھی کافروں کے تہوار اور ان کے رواج اپنا سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص ان رسوم و رواج کو اپناتے ہوئے یہ کہے کہ ہم ان کی نقل میں تھوڑی کر رہے ہیں یا ہم اس مذہبی عقیدے یا اس سوچ کے تحت تھوڑی کر رہے ہیں ہم تو رواجا کررہے ہیں۔۔۔اس کے جواب میں شیخ صالح عثیمین فرماتے ہیں۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہماری نیت /ارادہ مشابہت اختیار کرنا نہیں تو ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ مشابہت میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس لئے کہ مشابہت یہ ہے کہ شکل و صورت(ظاہری ہیئت) میں مشابہہ ہونا،اگر مشابہہ ہو جائے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے نیت کی تھی یا نہیں۔اس لئے اگر آپ نے نیت کی تھی تو یہ زیادہ بڑے خطرے کی بات ہے کیونکہ آپ نے ایسا ان سے محبت اور ان کی تعظیم و تکریم کی بنا پر کیااس لئے ہم ہر ایک کو مشابہت سے منع کرتے ہیں چاہے کوئی ارادتا کرے یا بغیر نیت کے کیونکہ نیت باطنی عمل ہے اور اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں اورمشابہت ظاہری چیز ہے اس لئے اس کے ظاہری ہونے کی بنا پر اس سے منع کیا جاتا ہے (الشرح الممتع:196-195)
دراصل تہوار اور رسومات کسی قوم کی شناخت اور تشخص ہوتے ہیں۔مسلمان کی اپنی ایک واضح پہچان اور شناخت ہے۔غیرمسلموں کو اگر دیکھا جائے تو وہ اپنے اس تشخص کے بارے میں بہت usconscio ہوتے ہیں۔وہ بھرپور طریقے سے اپنے تہوار مناتے اور رسومات کو پورا کرتے ہیں  دوسرے مذاہب کی چیزوں کو اختیار نہیں کرتے ۔کبھی کسی ہندو،سکھ ،عیسائی یا یہودی نے بکرا عید پر بکرے قربان نہیں ذبح کئے،نہ ہی رمضان کے روزے رکھے نہ ہی کسیاور رسم یا رواج کو اپنایا۔مگر ہم مسلمان بڑی خوشی سے ان کے تہوار مناتے اور ان کے رواجوں کو اپناتے ہیں۔
تاہم یہ بات کسی پر جبرا مسلط نہیں کی جا سکتی بلکہ اندر سے اسلام کے لیے احساس کمتری اور معذرت خواہی کے وائرس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ہم مسلمان ہیں۔۔۔ہماری تہذیب آسمانی اور آفاقی ہے۔اس رحمٰن کی عطاکردہ ہے جو اس کائنات کا مالک ہے۔اس تہزیب کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے حضرت جبرائیل کے ذریعے اتارا۔
جو حیثیت ایک پیغمبر کی اپنی قوم میں ہوتی ہے وہی حیثیت امت مسلمہ کی باقی اقوام میں ہے۔اگر ہماری اتنی برتر حیثیت ہے تو ہم ان کے رواج کیوں اپناتے ہیں۔دراصل ہم بہت سے کام بھیڑچال کے تحت کر رہے ہوتے ہیں بغیر ذہن پر زور ڈالے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں!! یہ کھیل تماشے ہم دوسری تہذیبوں کو دیکھ کر adopt کرتے ہیں ۔اس وقت ہم وہ بنیادی فرق بھول جاتے ہیں جو کفر اور اسلام کا زندگی کے تصور کے بارے میں ہے۔کافر کے لیے ساری عیش و عشرت کا مقام یہ دنیا ہے اس لئے اس نے ہر مزہ اور عیش یہیں تلاش کرنا ہے۔وہ ہر چیز میں fun thrillاور entertainment تلاش کرتا ہے مگر اب یہ بخار امت مسلمہ کے نوجوانوں میں بھی منتقل ہو چکا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے fun اور entertainment  کے نام پر ہر نئی چیز کو adopt کیا جاتا ہے۔۔ مگر جس شخص کو امتحان کی جوابدہی کا خیال زیادہ ہو گا اس کا دھیان کم سے کم ان کھیل تماشوں میں ہو گا(اس کو سمجھنے کے لئے دنیا کے امتحان کی سادہ سی مثال بھی کافی ہے)
کیونکہ ایک بندہ مومن ہرکام کرتے وقت قیامت کے دن کے سوال جواب کو مد نظر رکهتا ہے وه بے سوچے سمجهے کوئی کام نہیں کرتا کیونکہ نبی نے فرمایا تها
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِم
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابن آدم کے قدم قیامت کے روز اس وقت تک نہیں ہلیں گے اپنے رب کے ۔۔جب تک ان پانچ سوالوں کا جواب نہیں دے گا:
1.عمر کس کام میں گزاری
2.جوانی کس کام میں لگائی
3.مال کہاں سے کمایا
4.اور کہاں خرچ کیا
5.علم جو حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیاَ
اس لئے بندہ مومن جب خوشی مناتا ہے تو اس وقت بھی رب کریم کے احکامات اور فرامین کے زیرسایہ رہنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے رب تعالیٰ ہی ناراض ہو جائے۔
ہم  شادی جیسے  خوشی کےموقع پر جن رسوم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں ان پر بے پناہ وقت اور دولت لوٹائی جاتی ہے۔ یہ وہ سب رسومات ہیں جن میں سے کسی ایک کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے ۔ہم میں سے بہت سے لوگ ان رسومات کو پورا کرنے کے لیے بعض اوقات قرض کا بوجھ اٹھاتے ہیں اگر بالفرض قرض نہ بھی ہواور ہماری اپنی ہی کمائی ہوئی دولت ہو  تو بھی نعمتوں کی جوابدہی تو ہونی ہے۔
 ہلہ گلہ ،رونق میلہ میں بظاہر انسان انجوائے کرتا ہے مگر دیکھا جائے تو ہر خاندان میں تعلقات کی کشیدگی جھگڑوں اور دیگر کئی برائیوں کی بنیاد بھی ایسے ہی معاملات ہوتے ہیں ویسے بھی جن معاملات میں اللہ کی رحمت غائب اور شیطان کی نحوست شامل حال ہو گی تو ان کا انجام بخیر کیسے ہو سکتا ہے؟؟  توجائزہ لیجیئے ان رسموں کو پورا کرنا اور ان پر ڈھیروں پیسہ لگانا آئندہ زندگی پر کتنے خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے؟نو بیاہتا جوڑے کی زندگی پر اس سب کے کتنے مثبت اثرات ہوتے ہیں؟
جبکہ نبی نے تو فرمایا تھا:
إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً
بے شک وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت ہے جو کم خرچ اور آسان ہو۔"(مسند احمد:24529
معاشرے میں مروجہ رسوم و رواج کے خلاف جا کر کام کرنا بلاشبہ مہنگا سودا ہے جس میں اپنے نفس اور لوگوں کی مخالفت مول لینی پڑتی ہے مگر شریعت کی خلاف ورزی ،اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی مول لینا یہ زیادہ بڑا اور زیادہ مہنگا سودا ہے۔جس میں دنیا اور آخرت دونوں کی بربادی ہے۔
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یہ احتمال بھی ممکن ہے  کہ جو لوگ اس رسم کو نہیں جانتے وہ اس کے بارے میں جان جائیں گے۔مگر یہ اس لئے ضروری ہے کہ کسی بیماری کے علاج کی نسبت اس سے بچاؤ آسان ہے اس سے بچاؤ کے لیے اس بارے میں آگاہی ہونا ضروری ہے کیونکہ بیماری کا حملہ واقع ہو جانے کے بعد بیماری سے لڑنا  اور نجات حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔اسی طرح سے ان رسوم و رواج کے بارے میں بھی پہلے سے اگاہی ہونا ضروری ہے کیونکہ آہستہ آہستہ یہ پھیلتے ہیں اور اس کے بعد ہماری زندگی میں اس طرح سے شامل ہوتے ہیں کہ ہماری زندگی اور ہماری تقریبات کا لازمی جزو بن جاتے ہیں اور پھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ رسومات اور رواج ہمارے اپنے نہیں ۔جیسا کہ شادی پر کی جانے والی رسومات میں ،منگنی،مہندی مایوں،بارات،دودھ پلائی،راستہ روکائی،جوتا چھپائی وغیرہ ۔آج اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ یہ شائبہ بھی نہیں گزرتا کہ یہ ہمارے اپنے نہیں بلکہ یہ تو سب ہندوانہ تہوار تھے۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تودنیا کے معاملات میں تو ہم اپنے آپ کو ہلکان کرتے  ہیں اپنی ڈھیروں energies اس میں لگاتے ہیں۔میچنگ کپڑے ،گھروں کی سجاوٹ ،رنگ رنگ کے کھانوں میں محنت اور اس میں مین میخ بے انتہا۔۔۔لیکن دین کے معاملے میں فرائض ،واجبات،عقائد،روایات،تہذیب ۔۔۔ سب یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ان سے کیا فرق پڑتا ہے۔فرق تو پھر orange carpet کے ساتھ گرین صوفوں اور لال پردوں سے بھی نہیں پڑنا چاہیے۔گرین سوٹ کے ساتھ orange lipstick سے بھی نہیں پڑنا چاہیے۔
۔ہم دن میں کئی مرتبہ سورۃ فاتحہ میں اپنے رب سے دعا مانگتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم (ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے) اور اسی راستے کی وضاحت اللہ نے خود ہی کردی ہے کہ یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں جو مغضوب اور ضالین (یہود اور نصاریٰ)ہیں  یعنی ان کے طریقوں پر چلنے سے بچنے کے لئے ہر نماز میں  دعائیں مانگتے ہیں  مگر عملی زندگی میں اس کے برعکس چل رہے ہیں
ہمارے کرنے کا اصلا کام یہ ہے کہ اتنے واضح احکام اور تنبیہات کے بعد ہم اپنے رسم و رواج اور فنکشنز پر نظر ڈالیں جہاں کہیں وہ خوشیاں منائی جا رہی ہو جو ہماری اپنی نہیں انہیں نکال باہر کریں۔راپنی زندگی کے ہر پہلو میں  اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر اس کے مطابق زندگی گزاری جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی برکت شامل حال ہو اور خیر وبھلائیاں سمیٹ سکیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا مال جائز طریقے سے کمانے اور مباح امور پر ہی خرچ کرنے کی توفیق دے۔
وما توفیقی الا باللہ

5 comments:

  1. Replies
    1. You can share your views and it would be appreciated if you give reasons along with them.

      Delete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete