Saturday, 17 September 2016

برکت اور اس کے حصول کے اسباب





بسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ


 برکت کو عربی میں " بَرَكَة "کہتے ہیں۔ بَرَكَة  کا مطلب ہے "حوض"۔جس طرح حوض میں پانی جمع ہو جاتا ہے اسی طرح کسی چیز میں بہت سی خیر موجود ہونا  برکت کہلاتا ہے یعنی
کسی چیز میں الله کی طرف سے خیروبهلائی کے ٹهہرنےکو برکت سے تعبیر کرتے ہیں۔
برکت کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کوئی مادی چیز نہیں ہے جسے ظاہری آنکهوں سے دیکها جا سکے یا اسے ہاتھ  میں پکڑ کر چهوا جا سکے بلکہ یہ ایک  غیر مرئی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت  ہی کا ایک پہلو ہے. الله تعالی اس برکت کا منبع و مصدر ہے اور وہی اس برکت کو اپنی مخلوقات میں منتقل کرتا ہے .چنانچہ الله تعالی نے بہت سی آیات میں برکت کو اپنی ذات کے ساتھ منسوب کیا ہے۔
تَبَـٰرَكَ ٱلَّذِى بِيَدِهِ ٱلۡمُلۡكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِير  (الملک: 01)
"بہت بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔"

تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِيَكُونَ لِلۡعَـٰلَمِينَ نَذِيرًا   (الفرقان:01)
"بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے۔"
انسان ہمیشہ اس حرص اور آرزو میں رہتا ہے کہ اس کا وقت،عمر،مال و دولت اور اس کی وه تمام محبوب چیزیں جن کے حصول کو وه اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجهتا ہے وه زیادہ کر دی جائیں.در حقیقت برکت ہی وہ چیز ہے جو کسی قلیل المقداریا تهوڑی چیز میں  بھی داخل ہوجاۓتو اسے زیاده کر دیتی ہے اور اگرکسی کثیر المقدار چیز میں داخل ہوتی ہے تو اسے مزید نفع بخش بنا دیتی ہےاور ضرورت کے لیے کافی کر دیتی ہے ۔ دراصل اللہ نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اس میں شر بھی ہے اور خیر بھی۔جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
.
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔  مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ(سورہ الفلق)
         

"کہو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ ہر چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی "۔
جیسے آگ بستیوں کی بستیاں بھی جلا دیتی ہے اور لذیذ کھانے بھی تیار کر دیتی ہے۔برکت سے مراد یہ ہے کہ اس چیز سے وابستہ تمام ممکنہ فوائد حاصل ہو اور ان میں اضافہ ہوتا چلا جاۓ اور تمام ممکنہ نقصانات و شرور  سے بچا جاۓ جیسے جدید سہولیات سے آراستہ گاڑی ایک نعمت ہے اگر اس نعمت میں برکت نہ ہو تو یہی گھر میں جھگڑے کا باعث بن سکتی ہے،سڑک پر حادثے کا یا  نہ جانے کیسے کیسے زحمت بن جاۓ۔
اگر علمائے کرام،طلبائے دین،نیک و صالح اور عبادت گزار بندوں کے حالات کو بغور دیکها جائے تو یقینا ان کے تمام امور و معاملات میں برکت ضرور نظر آۓ گی۔.
برکت کا تعلق مادی ذرائع کے برعکس الله کی غیبی امداد سے ہے ایسی غیبی امداد جو نہ صرف آپ کے دل کو اطمینان و خوشی دے بلکہ آپ کی ضروریات بهی آپ کے وسائل کے اندر اندر پوری ہو جائیں یوں سمجهیں  کہ برکت الله تعالی کی طرف سے خاص انعام ہے.
اگر کهانے میں برکت دیکهنی ہو تو گرمیوں میں سڑک کهودتے کسی مزدور کو کهانے کے وقفہ میں دیکھ لیں جب وه چهاؤں میں بیٹھ کراپنا توشہ دان کهول کر اس سے روٹی نکالتا ہے اور بسم اللہ پڑھ کر کهانا شروع کر دیتا ہے۔ اس کهانے سے جو دلی قرار اس کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے وہ کسی لکھ پتی کو میکڈونلڈ اور کے ایف سی کے مہنگے برگر کها کر بهی نصیب نہیں ہوتا.سوکهی روٹی کے چند نوالوں سے اس کو جتنی طاقت ،چستی اور غذائیت حاصل ہوتی ہے وہ کسی دعوت اڑانے والے کو بھی نصیب نہیں ہوپاتی۔

ذہنی دباؤ کے اپنا باورچی خانہ چلا رہے ہو تو اسے برکت کہتے ہیں.چاہے آپ کی آمدن ایک لاکھ ہو یا ایک ہزار .اس کی سب سے بڑی نشانی دل کا اطمینان ہوتا ہے جو کہ عموما بڑے بڑے سیٹهوں اور رئیسوں کے پاس نہیں ہوتا
ایک شخص کے پاس رہنے کے لئے عالی شان مکان ہے جو جدید ترین سامان سے آراستہ ہے۔کمرے میں ائیر کنڈیشنر چل رہا ہے۔لیکن جب وہ بستر پر لیٹتا ہے تو نیند غائب ہے،ہزاروں جتن کے بعد بھی سو نہیں سکتا،ساری رات بستر پر کروٹیں بدل کر گزار دیتا ہے۔اس شخص کے پاس آرام و آسائش کے ظاہری اسباب پوری طرح موجود تھے لیکن اسے آرام نہ مل سکا۔
دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور بھرپور نیند لے کر صبح چاک و چوبند اٹھتا ہے حالانکہ نہ اس کے پاس نرم بستر تھا،نہ ائیرکنڈیشنر کمرہ تھا لیکن اس کھردری چارپائی پر بھی اسے وہ راحت میسر آگئی جو اس دولت مند کو ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بھی میسر نہیں آئی تھی۔
اس قسم کی دسیوں مثالیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔جن میں ایک شخص لذت اور راحت کے سارے اسباب سے لیس ہونے کے باوجود لذت و راحت سے محروم رہتا ہے اور دوسرا شخص بہت معمولی سازو سامان کے باوجود اس سے کہیں زیادہ ذہنی سکون اور اطمینان سے سرشار۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں راحت و آسائش کے جتنے وسائل ہیں  ان سے واقعتا لذت و راحت حاصل ہونا کچھ ایسے عوامل پر موقوف ہے جو انسان کی قوت و اختیار سے باہر ہیں۔انسان روپیہ خرچ کر کے آرام و خوشی کے اسباب تو خرید سکتا ہے لیکن وہ عوامل پیسے سے خریدے نہیں جا سکتے جن کی وجہ سے ان اسباب میں حقیقی راحت وآرام عطا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔انسان دن رات ایک کرکے دولت کما سکتا ہے،بنگلے خرید سکتا ہے،گاڑیاں خرید سکتا ہے لیکن ان چیزوں سے جو حقیقی خوشی اور آرام حاصل کرنے کے لئے جو صحت درکار ہے ،جن پرسکون گھریلو تعلقات کی ضرورت ہے اور جو ذہنی سکون ناگزیر ہے وہ پیسوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ خالصتا اللہ کی عطا ہے اور اس عطا میں اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی اس عطا کو ہی برکت کہتے ہیں۔اسی برکت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر دنیا کے کسی سامان سے وقتی طور پر کچھ راحت مل بھی رہی ہے تو اس کا انجام  بھی بخیر ہو۔اگر ایک ڈاکو لاکھوں روپیہ لوٹ کر تین دن مزے اڑاۓ اور چوتھے دن جیل میں پہنچ جائے تو وہ تین دن کے مزے کس کام کے؟!۔۔
برکت ہی کی طرح کی ایک اور غیبی حقیقت جادو بھی ہے۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم جادو کے برحق ہونے پر یقین رکهتے ہیں کہ انسان کے جسم اور اس کے اردگرد کے ماحول پر اس کے بہت گہرے اور بہت نقصان دہ اثرات ہوتے ہیں.جادو غیبی اور غیر مرئی چیز ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ہم احتیاط اور دعاؤں وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور جادو واقع ہو جانے کی صورت میں اس کا علاج کرتے ہیں چاہے مادی اور ظاہری طور پر حالات دیکهنے میں بالکل ٹهیک ہی کیوں نہ ہو۔ بعض لوگ ایمان اور علم کی کمی کی وجہ سے جادو کے اثرات اور نقصانات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جادو کا علاج جادو سے کرتے ہیں جو کہ شرعا حرام ہے۔- بعض اوقات جادو کا محض شک ہونے کی بناء پر ہی اس حوالے سے فکر مند ہو جاتے ہیں ۔
 اسی طرح سے برکت کا معاملہ ہے۔ برکت بھی غیبی اور غیر مرئی چیز ہے کہ بظاہر اسباب اور چیزیں تهوڑی ہی کیوں نہ ہو ہمیں اس سے بہت ساری خیر اور فائدے حاصل ہوتے ہیں اور بظاہر تهوڑی نظر آنے والی چیز برکت شامل ہونے کی بناء پر زیادہ کفایت کر جاتی ہے. ہم جادو کو تو اہم سمجهتے ہیں مگر برکت اور اس کے حصول کو اہمیت نہیں دیتے.برکت حاصل کرنے کے لئے بھی ہمیں کچھ اسباب اختیار کرنے ہوں گے

تمام عبادات اور خیر کے کام برکت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں لیکن شریعت میں  بعض امور کے ساتھ حصول برکت کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے لہذا زیر نظر سطور میں ان اسباب کا جائزہ لیں گے۔

1۔ تقویٰ:
امام ابن  تیمیہ نے تقویٰ کی یہ تعریف کی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس کے کرنے اور جس چیز سے منع کیا  ہے اس کو ترک کر دینے کا نام تقویٰ ہے۔ الله تعالی کا تقوی ٰ  اور اس کی اطاعت  برکت کا پیش   خیمہ ہے
.تقوی ہر نیکی کی قبولیت کا اہم جزو ہے۔

وَلَوۡ أَنَّ أَهۡلَ ٱلۡقُرَىٰٓ ءَامَنُواْ وَٱتَّقَوۡاْ لَفَتَحۡنَا عَلَيۡہِم بَرَكَـٰتٍ۬ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذۡنَـٰهُم بِمَا ڪَانُواْ يَكۡسِبُونَ (الاعراف:96)
"اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین کی برکتیں کھول دیتے"۔
غرض انسان جتنا زیاده نیکیوں میں آگے بڑهتا جائے گا ، ہر کام میں سنتوں کی پیروی اور الله کی رضا کو مد نظر رکهے گا اس کی زندگی میں اتنی زیاده برکتیں ہوں گی .
امام سیوطی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :"تقویٰ رزق میں برکت اور زیادتی کا وسیلہ ہے اور اطمینان قلب کا باعث ہے۔"(شرح سنن ابن ماجہ:311)
تقوٰی یا ایمان جن ہستیوں کی زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔وہاں  محض 313افراد   بھی   ہزار  پر  غالب آنے   کے لیے کافی ہو گئے تھے۔(اسی غیبی مدد کے ذریعے سے)۔
یہی تقوٰی اگر ہمارے  معمولات اور معاملات سے غائب ہو تو انفرادی اور اجتماعی  زندگی میں  مشکلات،آفتوں اور مصیبتوں  کا باعث بنتا ہے۔

"خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا،اس کی وجہ سے  جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا،تاکہ وہ انہیں اس کا مزہ چکھائے جو انہوں نے کیا ہے،تاکہ وہ باز آجائیں۔"(الروم:41)
فساد سے  مراد  ہر آفت اور مصیبت ہے  چاہے وہ  جنگ وجدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا  قحط،بیماری،فصلوں کی تباہی،بدحالی ،سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں ہو۔
2۔ دعا کرنا:
ایک مسلمان کی زندگی میں دعا کی بہت اہمیت ہے کیونکہ دعا مومن کا ہتهیار ہے جو کہ مشکل اور مایوسی کے حالات میں الله سے تعلق کو مضبوط کرتی ہے.
نبی ﷺ اپنے  امور میں الله تعالیٰ سے برکت کی دعا کیا کرتے تهے.اپنے لئے بهی برکت کی دعا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بهی برکت کی دعا دینا مسنون ہے.اسی طرح سے باقی انبیاء سے بهی برکت کی دعا کرنا ثابت ہے جس سے  برکت کی اہمیت کا ندازہ ہوتا ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کو بهی چاہیئے کہ وه اپنے وقت،مال،اولاد،ازواج غرض ہر معاملہ میں الله سے برکت کی دعا کرے
اسی لئے وتر میں پڑھی جانے والی دعا میں بھی برکت کی دعا شامل ہے۔
وَبَارِکْ لَنَا فِيْمَا اَعْطَيْتَ
"اور(اے اللہ) جو بھی انعامات تو نے ہمیں عطا کئے ہیں، ان میں برکت عطا کر"
رزق میں برکت کی دعا:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي، وَبَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي
"اے اللہ!میرے لیے میرے گناہ معاف کر دے،میرے لیے میرے گھر میں وسعت پیدا کردے اور میرے لیے میرے رزق میں برکت دے"۔
باقی انبیاء بھی برکت کی دعا مانگا کرتے تھے جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں آتا ہے۔
رَّبِّ أَنزِلۡنِى مُنزَلاً۬ مُّبَارَكً۬ا وَأَنتَ خَيۡرُ ٱلۡمُنزِلِينَ (المومنون:29)
"اے میرے رب مجھے مبارک جگہ اتارنا تو بہترین اتارنے والا ہے"۔
نبی ﷺ اپنے اصحاب کے لئے برکت کی دعا کیا کرتے تهے۔
سیده ام سلیم رضی الله عنہا نے سیده انس رضی الله عنہ کے لیے آپ ﷺ سے برکت کی دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:
«اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ، وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ
یا الله !انس کو مال  کثرت سے عطا کر،اولاد بهی کثیر عطا کر اور اس کی ہر چیز میں برکت ڈال دے.(صحیح البخاری)
جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی الله عنہ  کے ۱۰۰ سے زائد بچے تھے
برکت کے حوالے سے اور بھی بہت سے واقعات ہمیں نبی ﷺ کی زندگی سے ملتے ہیں:
سیدنا عروہ  رضی الله عنہ کو رسول الله ﷺ نے ایک دینار دیا تاکہ وه اس سے ان کے لیے قربانی کا جانور خریدیں ،انہوں نے ایک دینار کے بدلے میں دو بکریاں خریدیں،پهر ایک دینار کےعوض ایک بکری فروخت کر دی .سیدنا عروه نے دینار اور بکری لا کر پیش کر دی تو رسول الله نے ان کے لیے برکت کی دعا کی.بعد ازاں وه مٹی بهی خریدتے تو الله ان کو نفع دیتا.(ابو داؤد:3348)


سیدنا جابر رضی الله عنہ بہت مقروض تهے،آپ کا خیال تها کہ میرا قرض جلد اتر جائے لیکن کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی.انہوں نے رسول اللہ ﷺ  سے عرض کیا کہ میری سفارش(قرض خواہ) سے کر دیں.آپ ﷺ نہ مانے.میں نے دوبارہ عرض کیا.آپ ﷺ پهر بهی نہ مانے اور یہ دعا کی کہ اے الله اس کے پهلوں میں برکت دے دے.(وہ کہتے ہیں)میرا قرض اتر گیا.تیس وسق تقریبا ایک سو بارہ من اور بیس کلو کهجوریں قرضہ تها جو اتر گیا اور ستره وسق کهجوریں بچ گئیں.(صحیح البخاری:2395)

اس حدیث سے یہ بهی سبق ملتا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بهی دعا کرنا ترک نہیں کرنا چاہیئے اور دوسروں کو دعائیں دینے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیئے بلکہ کثرت سے دوسروں کو دعائیں دینی چاہیئے دوسروں کے لۓ برکت کی دعا کرنا اتنا اہم ہے کہ ہمیں جو آپس میں سلام کا جوطریقہ سکهایا گیا ہے اس کے الفاظ بهی یہی ہے۔
" السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ"۔.

شریعت میں بعض مواقع پر دعائیں دینا مسنون ہے جیسا کہ نبی ﷺ پیدا ہونے والے بچے کو برکت کی دعا دیتے تهے۔.

عَنْ أَسْمَاءَ أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ ابْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ،فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ ءصلى الله عليه وسلمء فَوَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيقُ رَسُولِ اللَّهِ ءصلى الله عليه وسلمء، ثُمَّ حَنَّكَهُ بِالتَّمْرَةِ،ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّكَ عَلَيْهِ وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ

"حضرت اسماء رضی الله عنہا نے بیان کیا کہ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ ان کے پیٹ میں تھے ،انہی دنوں جب حمل کی مدت بھی  پوری ہوچکی تھی،میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئی یہاں پہنچ کر میں نے قبا میں پڑاؤ کیا اور یہیں عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ پیدا ہوۓ۔ پھر میں انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ ﷺ کی گود میں اسے رکھ دیا۔ نبی ﷺ نے ایک کھجور طلب فرمائی اور اسے چبا کر آپ نے اسے عبد اللہ رضی الله عنہ کے منہ میں رکھ دیا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو چیز عبد اللہ رضی الله عنہ کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ حضور اکرم ﷺ کا لعاب تھا اس کے بعد آپ نے ان کے لۓ دعا فرمائی اور اللہ سے ان کے لیے برکت طلب کی۔"
(صحیح البخاری:3909)
اس کے علاوہ نبی کریم نے حکم دیا کہ جب تمہیں اپنے بهائی کے پاس موجود کوئی چیز اچهی لگے تو اسے چاہیئے کہ اپنے بهائی کو برکت کی دعا دے کیوں کہ خود کو ایسی عادت ڈالنے سے ہم غیر محسوس طور پر جو حسد کا شکار ہیں اس سے بچ سکتے ہیں اور دوسرا شخص نظر لگنے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔کیونکہ نظر برحق ہے.جیسا کہ مسند احمد کی حدیث میں آتا ہے

وعلمنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن ندعو بالبركة إذا رأينا ما يعجبنا. قال (صلى الله عليه وسلم)إذَاَ رَأَى أَحَدكم مِنْ أَخِيهِ أَوْ مِنْ نَفْسِهِ أَو مِنْ مَاَله مَاَ يُعْجِبه فَليَبركه فَإنَ العَيْن حَقٌ
صحابہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ جب تم میں سےکسی کو اپنا بھائی یا اپنے بھائی کی کوئی چیز اچھی لگے یا اس کا مال تو اسے چاہئے کہ اس (اپنے بھائی) کو برکت کی دعا دے کیونکہ نظر برحق ہے۔
نظر لگنے کے حوالہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی سے بھی مثالیں ملتی ہیں کہ برکت کی دعا دینا کتنا اہم ہے اور برکت کی دعا نہ دینے سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔اس حوالہ سے ذیل میں ایک واقعہ درج کیا گیا ہے۔
، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، وَسَارُوا مَعَهُ نَحْوَ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِشِعْبِ الْخَزَّارِ مِنَ الْجُحْفَةِ، اغْتَسَلَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ وَكَانَ رَجُلًا أَبْيَضَ، حَسَنَ الْجِسْمِ، وَالْجِلْدِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ أَخُو بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ وَهُوَ يَغْتَسِلُ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ، وَلَا جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ فَلُبِطَ بِسَهْلٌ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي سَهْلٍ؟ وَاللَّهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ، وَمَا يُفِيقُ، قَالَ: «هَلْ تَتَّهِمُونَ فِيهِ مِنْ أَحَدٍ؟» قَالُوا: نَظَرَ إِلَيْهِ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِرًا، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ وَقَالَ: «عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ هَلَّا إِذَا رَأَيْتَ مَا يُعْجِبُكَ بَرَّكْتَ؟» ثُمَّ قَالَ لَهُ: «اغْتَسِلْ لَهُ» فَغَسَلَ وَجْهَهُ، وَيَدَيْهِ، وَمِرْفَقَيْهِ، وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ، وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ فِي قَدَحٍ، ثُمَّ صُبَّ ذَلِكَ الْمَاءُ عَلَيْهِ، يَصُبُّهُ رَجُلٌ عَلَى رَأْسِهِ، وَظَهْرِهِ مِنْ خَلْفِهِ، يُكْفِئُ الْقَدَحَ وَرَاءَهُ، فَفَعَلَ بِهِ ذَلِكَ، فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

امامہ بن سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ ان سے ان کے باپ (سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کی جانب نکلے تو وہ بھی ان کے ساتھ چل پڑے،یہانتک کہ جحفہ کے قریب شعب خزار کے مقام پر پہنچے۔وہاں سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے نہانا شروع کر دیا۔ سہل گوری رنگت،خوبصورت جلد اور  خوبصورت جسم والے آدمی تھے۔ان کی طرف عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ (عدی بن کعب کے بھتیجے) نے غور سے دیکھا(نظر لگائی) اور وہ نہا رہے تھے ،پس عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ’’میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘ یہ کہنا تھا کہ سہل رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے  کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘

پھر آپﷺ نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو  ایک برتن میں دھویا اور پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔‘‘پھر ایک شخص نے ان کے سر پر پیچھے سے ان کی پشت پر برتن جھکا کر پانی بہایا۔تو سھل بالکل ٹھیک ہو گئے اور لوگوں کے درمیان ایسے تھے گویا کہ کچھ نہیں ہوا۔
(مسند احمد:15980)۔
(نظر لگ جانے کی صورت میں شرعی علاج یہی ہے کہ جس شخص کی نطر لگی ہو اس کے غسل کا پانی اس شخص پر بہایا جاۓ جس کو نظر لگی ہو،اور نظر لگنے سے بچنے کے لئےنظر سے بچنے کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے )

اس کے علاوه اپنے مسلمان بهائی کے نکاح کے موقع پر بهی برکت کی دعا دینا مسنون ہے.
جیسا کہ مختلف  روایات سے پتا چلتا ہے کہ نبی ﷺ نکاح کے موقع پر برکت کی دعا دیا کرتے تھے۔ اس لیے آج ہمارے لیے بھی یہی سنت ہے کہ اس موقع پر پورے اخلاص کے ساتھ دوسرے کو برکت کی دعا دیں۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، قَالَ: «مَا هَذَا؟» قَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: «بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ
حضرت انس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنہ (کے کپڑوں)پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا  کہ یہ کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کر لیا ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:اللہ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو۔
(صحیح البخاری:5155)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: هَلَكَ أَبِي وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ثَيِّبًا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ» فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: «بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟» قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: «فَهَلَّا جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ، وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ» قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ هَلَكَ، وَتَرَكَ بَنَاتٍ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتُصْلِحُهُنَّ، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ
جابر بن عبد اللہ نے رضی اللہ عنہ  نے بیان کیا کہ میرے والد شہید ہو گئے  اور انہوں نے سات لڑکیاں چھوڑیں یا نو۔چنانچہ میں نے ایک شادی شدہ عورت سے نکاح کیا۔رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا:"جابر !تم نے شادی کی ہے؟" مییں نے کہا:جی ہاں،فرمایا:"کنواری سے یا بیاہی سے ؟میں نے عرض کیا:بیاہی سے۔فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی۔تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کرتی"جابر نے بیان کیا کہ میرے والد شہید ہو گئے  اور انہوں نے کئی لڑکیاں چھوڑی ہیں اس لیے میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان کے پاس ان ہی جیسی لڑکی بیاہ لاؤں،اس لیے میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے جو ان کی دیکھ بھال کرسکے اور ان کی اصلاح کا خیال رکھے۔ نبی ﷺ نے اس پر فرمایا:اللہ تمہیں برکت دے۔(صحیح البخاری:5367)
مبارک دینے کا یہ تصور بھی دراصل اسی کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔مبارک کا مطلب ہی یہ ہے کہ دوسرے کو دعا دینا کہ اللہ بابرکت بناۓ یا برکت دے۔مگر ہم اس کو شعوری طور پر اور اس کی اصل روح کے ساتھ برکت کی دعا دینے کے بجاۓ رسمی طور پر یہ الفاظ ادا کرتے ہیں اور جس کو مبارکباد نہ دی جاۓ تو ایسا شخص برا مناتا ہے۔کئی گھروں میں جھگڑوں اور لڑائیوں  کی بنیاد ہی یہ باتیں ہیں۔
جب ہم کسی کی شادی کے موقع پر اس سے کہتے ہیں کہ "مبارک ہو" تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ  اگرچہ تم نے اپنی  کوشش کرکے بہتر رشتہ ڈھونڈا ہے  لیکن اس رشتے کی کامیابی کچھ ان دیکھے حالات پر موقوف ہے جو تمہارے اختیار سے باہر ہیں  اور صرف اللہ  تعالی ٰ کے اختیار میں ہیں۔ہم اسی سے دعا کرتے ہیں کہ یہ رشتہ دنیا اور آخرت  دونوں میں کامیاب ثابت ہو۔
جب کوئی دوسرا کهانا کهلائے تو اس کو بهی برکت کی دعا دینا مسنون ہے
حضرت عبد اللہ بن بسر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے والد کے ہاں تشریف لاۓ اور کچھ دیر ٹھہرے۔میرے والد نےآپ ﷺ کو کھانا پیش کیا، انہوں نے ذکر کیا کہ وہ کھانا حیس (ایک خاص قسم کا کھانا جو کھجور،پنیر،گھی،اور آٹے وغیرہ کا مرکب ہوتا ہے)تھا جو لایا گیا۔ پھر وہ مشروب لاۓ جو آپ ﷺ نے نوش فرمایا،پھر اپنے دائیں طرف والے کو دے دیا،آپ ﷺ نے کھجوریں کھائیں اور گٹھلیاں اپنی انگشت شہادت اور ساتھ والی انگلی کی پشت پر رکھتے گئے۔پھر جب آپ ﷺ وہاں سے اٹھے تو میرے والد نے اٹھ کر آپ ﷺ کی سواری کی لگام تھام لی اور عرض کیا کہ میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیں،تو آپ ﷺ نے فرمایا
اللهُمَ بَاَركْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُم، واغْفِر لَهُمْ وارْحَمْهُم
"اے اللہ!تو نے جو ان کو رزق دیا ہے اس میں برکت عطا کر۔ان کو بخش دے اور ان پر رحمت نازل کر"
((سنن ابی داؤد:3729
اس کے علاوه نبی ﷺ کےپاس جب کوئی نیا پهل لایا جاتا تو آپ اس میں برکت کی دعا کرتے تهے.
، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِأَوَّلِ الثَّمَرِ، فَيَقُولُ: «اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَفِي ثِمَارِنَا، وَفِي مُدِّنَا، وَفِي صَاعِنَا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ»، ثُمَّ يُعْطِيهِ أَصْغَرَ مَنْ يَحْضُرُهُ مِنَ الْوِلْدَانِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسوال اللہ ﷺ کے پاس پہلا پھل آتا تو آپ ﷺ دعا کرتے:اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شہر میں برکت دے،ہمارے پھلوں میں برکت دے اورہمارے صاع میں برکت در برکت فرما پھر وہ پھل موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دیتے تھے۔(صحیح مسلم:1373)
3۔حلال طریقے سے مال حاصل کرنا:
امام بخاری اور امام مسلم حضرت ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان سے ذکر کیا کہ ان کے لئے دنیا کی رونق کے دروازے کهول دیئے جائیں گے پهر حدیث کے آخر میں فرمایا
"فَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ فَمَثَلُهُ، كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَع
تو جو کوئی حق کے ساتھ مال لے گا اس کو اس میں برکت دی جائے گی  اور جو بغیر حق کے مال لے گا تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔"

وقت کے ساتھ ساتھ  لوگوں میں دولت کی حوص , دین سے لا علمی  اور ایمان کی کمی کی وجہ سے صرف حلال ذرائع سے رزق حاصل کرنے کی فکر ختم ہوتی جا رہی ہے.اگر ذریعہ رزق حلال بهی ہو تو رشوت اور سود  جیسے کبیرہ  گناہوں کے ذریعے سے اس کو آلودہ کیا جاتا ہے اور آمدن میں حرام کی آمیزش بے برکتی کا باعث بنتی ہے.ماہانہ لاکهوں کروڑوں کمانے کے باوجود ذہنی دباؤ ، بے چینی اور پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔.
اس  طرح حلال جگہوں پر خرچ کرنا اور اسراف سے بچنا بهی برکت کے حصول کے لئے اہم ہے کیوں کہ اسراف کرنے سے مال میں برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اسراف الله کے دیئے ہوئے رزق کی نا شکری اور نا قدری ہے۔اس لیے رزق کو حلال طریقے سے کمانے کی فکر کے ساتھ ساتھ اس کو  استعمال کرنے کے حوالے سے بھی اسی فکر اور احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ شریعت نے جس طرح سے رزق کمانے کے حوالے سے راہنمائی دی ہے اسی طرح سے خرچ کرنے کے حوالے سے بھی مکمل راہنمائی موجود ہے کہ کہاں کہاں،کتنا اور کیسے خرچ کرنا ہے۔
: یحیی بن ابی کثیر رحمه الله فرماتے هیں :
تین چیزیں جس گھر میں بھی ہو اس سے برکت کھینچ لی جاتی ہے:اسراف ،زنا اور خیانت"(حلیہ الاولیاء:2/348)

اسی طرح سے نکاح کے بارے میں بھی آتا ہے کہ وہ شادی بابرکت ہے جس میں سادگی ہو جیسا کہ حدیث میں آتا ہے
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بے شک وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت ہے جو کم خرچ اور آسان ہو۔"(مسند احمد:24529)
مندرجہ بالا حدیث سے پتا چلتا ہے کہ ہماری زندگی اور رشتوں میں برکت کے حصول کے لیے سادگی کو رواج دینا ہو گا۔
سادگی کی برکات کیا ہیں؟آسانی ،سہولت ،سکون،راحت اور  مقصد زندگی کے حصول کے لئے وقت میں  کشائش۔گھنٹے تو وہی چوبیس ہیں جو ہر فرد کو ملے ہوۓ ہیں ۔پچیسواں تو آپ  کو نہیں ملے گا۔ضروریات زندگی  کم سے کم ہوں گی  تو کم سے کم وقت ،پیسے اور توانائی اس پر خرچ ہو گی۔ہم اس چکا چوند مادی دور میں مادیت کے منہ زور  سیلاب میں  جو غرق ہو رہے ہیں  تو اس کی وجہ دل کا اس ایمان و یقین سے خالی ہونا ہے کہ دنیا  عارضی ہے ۔دنیا کو ہم نے ابدی مان لیا ہے اسی وجہ سے تو کل سرمایہ حیات دنیا کے لیے جھونک رہے ہیں۔
4 ۔ قرآن کی تلاوت:
قرآن مجید ایک بابرکت کتاب ہے یہ کتاب جسمانی اور روحانی بیماریوں کے لئے شفاء ہے الله تعالی کا فرمان ہے:
كِتَـٰبٌ أَنزَلۡنَـٰهُ إِلَيۡكَ مُبَـٰرَكٌ۬ لِّيَدَّبَّرُوٓاْ ءَايَـٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُواْ ٱلۡأَلۡبَـٰبِ
""یہ ایک کتاب ہے ہم نے اسے تیری طرف نازل کیا ہے بہت بابرکت ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اورتاکہ عقلوں والے نصیحت حاصل کریں۔"(ص:29)
اسی طرح سے سورہ البقرہ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے۔
"سورہ بقرہ پڑهو کیوں کہ اس کا پڑهنا باعث برکت ہے اور اسے چهوڑنا حسرت ہے اور باطل یعنی جادوگر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے"۔
دن کا آغاز کلام پاک کی تلاوت کرنے سے اس دن میں اور اس دن کئے جانے والے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے. سلف صالحین کثرت سے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تهے.ایک ماه میں قرآن نہ ختم کرنے والے کو غافلین میں شمار کیا جاتا تها ۔یہ صرف قرآن کی تلاوت کے بارے میں اہتمام تها .قرآن کے معانی میں  غوروفکر، تدبر اور درس و تدریس اس کے علاوه تها.آج ہم اس کو ترک کرکے برکت سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن سے بهی دور ہو گئے اور کئی قسم کے نقصانات اٹھا رہے ہیں۔ دینی درس و تدریس میں مصروف لوگ بھی بعض اوقات قرآن کے مصحف سے تلاوت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اس لیے اپنی زندگی میں برکت کو لانے کے لئے قرآن سے ویسا تعلق قائم کرنا ہو گا جیسا صحابہ کرام کا تھا۔
ہماری زندگیوں میں بے برکتی کی اصل وجہ قرآن سے دوری ہے۔جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا:
                            وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا          
اور جو کوئی ہمارے ذکر(قرآن)سے منہ موڑے گا تو اس کے لیے دنیا میں تنگی کا جینا ہوگا۔(طہٰ:124)
5۔ مال لینے میں حرص و لالچ نہ کرنا اور سوال سے بچنا:
نبی ﷺ نے سیدنا حکیم بن حزام رضی الله عنہ سے کہا:
يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، اليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى
اے حکیم !یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے پس جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے (یا بغیر مانگے لے) تو اس کی دولت میں برکت ڈال دی جاتی ہے،اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں برکت نہیں ڈالی جاتی  ۔اس کا حال اس شخص جیسا ہوتا ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے"(صحیح البخاری:1472)
آج دلوں میں دولت کی حوص اور لالچ بڑھ گئی ہے ہماری زندگی سے برکت غائب ہونے کی بہت بڑی وجہ دولت کی حرص اور لالچ ہے۔چاہے وہ جائیداد کی شکل میں ہو یاکپڑوں اور زیور کی شکل میں ۔ ۔ ۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَزَلَ بِهِ حَاجَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ، كَانَ قَمِنًا مِنْ أَنْ لَا تَسْهُلَ حَاجَتُهُ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ، أتَاهُ اللَّهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ، أَوْ بِمَوْتٍ آجِلٍ
"جس شخص پر کوئی شدید حاجت اتر آئے اور وہ اپنی اس حاجت کو لوگوں پر ظاہر کرتا پھرے تو یہ زیادہ ممکن  ہے کہ اس کی حاجت ہرگز نہیں پوری ہوگی اور جو اپنی حاجت کو اللہ تعالی کے حضور پیش کرے گا تو اللہ تعالی بہت جلد اسے رزق عطا کرے گا یا تو جلد اسے موت دے کر ان ضرورتوں سے بے نیاز کر دے گا۔"(مسند احمد:3696)
6۔خریدوفروخت،تجارت،شراکت یا کوئی بهی معاملہ کرتے ہوئے سچائی سے کام لینا:
حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا» (صحیح البخاری:2110)
  حکیم بن حزام رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم سےروایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والا جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں انہیں اختیار باقی رہتا ہے۔ اب اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات صاف صاف بیان اور واضح کر دی تو ان کی خریدوفروخت میں برکت ہوتی ہے.لیکن اگر انہوں نے کوئی بات چهپائی یا جهوٹ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں سے برکت ختم کر دی جاتی ہے۔"
جیسا کہ نبی  نے فرمایا "فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا "یعنی دونوں میں سے ہر ایک وہ سبب بیان کر دے جس کے بیان کرنے کی ضرورت ہے عیب،نقص وغیرہ اور چیز اور قیمت کے حوالہ سے ہر اہم بات
اور یہ کہنا کہ"بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا"یعنی کہ اس کا منافع بڑه جاتا ہے اور "مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا" یعنی کہ برکت چلی جاتی ہے چاہے وه چیز کتنی زیاده اور کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

«عَنْ سَعِيدِ بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:مَنْ بَاعَ دَارًا أَوْ عَقَارًا فَلَمْ يَجْعَلْ ثَمَنَهُ فِي مِثْلِهِ، كَانَ قَمِنًا أَنْ لَا يُبَارَكَ فِيهِ.
سعید بن حریث بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنا گھر یا جائیداد غیر منقولہ(مثلا باغ،کھیت )بیچے اور اس کی قیمت اس کےمطابق مقرر نہ کرے تو یہ زیادہ ممکن ہے کہ اس میں برکت نہ دی جائے گی۔(سنن ابن ماجہ:2490)
آج ہمارے ہاں معاملہ کرتے ہوئے سچائی ، خیرخواہی اور کهراپن معدوم ہے چاہے وہ گهر،گاڑی،پلاٹ اور موبائل کی خرید و فروخت کا معاملہ ہو یا بچوں کا رشتہ کرنے کا معاملہ ہو ہمارے ہاں معاملات اس حدیث میں بتائے گئے اصولوں کو مدنظر رکھ کر نہیں کیے جاتے بلکہ دھوکہ،جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے یا صرف ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں برکت ختم ہو جاتی ہے اور انسان اس سے حاصل ہونے والی خیر کثیر سے محروم ہو جاتا ہے اور بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مندرجہ ذیل واقعہ سے صحابہ  کرام کے باہمی معاملات میں خیر  خواہی کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔کہ  وہ معاملہ کرتے ہوئے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کے کتنے خیرخواہ تھے۔
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک  گھوڑا چند درہم میں خریدا۔مگر بعد میں محسوس کیا کہ اس گھوڑے کی قیمت تو ادا کردہ قیمت سے زیادہ ہے تو جس شخص سے گھوڑا خریدا تھا اس کے پاس واپس گئے اور کہا آپ کے گھوڑے کی قیمت تو ادا کردہ قیمت سے زیادہ ہے اور یوں اس کو مزید رقم دی اور واپس چلے گئے۔گھوڑے کو مزید دوڑایا تو محسوس کیا کہ یہ تو اور بھی زیادہ قیمتی گھوڑا ہے واپس گئے اور دوبارہ وہی بات دہرا کر مزید قیمت ادا کی۔تیسری بار بھی یہی عمل دوہرایا اور یوں جس گھوڑے کی قیمت دو سو درہم طے پائی تھی بالاخر آٹھ سو درہم میں خریدا۔جب اضافی رقم ادا کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے کی  بیعت کی  تھی۔

7۔ تجارت،علم کا حصول غرض ہر کام کی ابتداء صبح کے وقت کرنا:
تجارت،علم حاصل کرنا یا کوئی بهی کام ہو اس کو صبح کے وقت کرنا برکت کا باعث ہے . نبی ﷺ نےدن کے ابتدائی  وقت کے متعلق برکت کی دعا کی ہے.سیدنا صخر الغامدی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا
(مسند احمد)"اے الله ،میری امت کے لئے اس کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما."
(راوی کہتا ہے)کہ رسول الله جب کوئی چهوٹا یا بڑا لشکر روانہ فرماتےتو ان کو دن کے ابتدائی حصہ(صبح کے وقت)روانہ فرماتے تهے.صخر الغامدی رضی الله عنہ ایک تاجر آدمی تهے جب وه اپنے لڑکوں کو کہیں بهیجتے تو صبح کے وقت بهیجتے جس سے وه بہت مال دار بن گئے اور ان کا مال بہت بڑھ گیا۔
صبح کا وقت ایسی چیز ہے کہ انسان اگر اس وقت کو استعمال کرے تو وہ اس پورے دن میں برکت کو محسوس کرے گا۔ اور اگر اس نے صبح کا وقت کهو دیا (ضائع کر دیا)تو وه اس پورے دن میں برکت کی کمی کو محسوس کرے گا.
عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ، فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَنَا، قَالَ: فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً، قَالَ: فَخَرَجَتِ الْجَارِيَةُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَدْخُلُونَ، فَدَخَلْنَا، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَقَدْ أُذِنَ لَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ، قَالَ: ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً۔
ابووائل نے کہا کہ ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک لونڈی نکلی اور اس نے کہا :تم اندر داخل کیوں نہیں ہوتے؟غرض ہم اندر گۓ اور ان کو دیکھا کہ بیٹھے ہوۓ تسبیح کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا جب تمہیں اجازت دی گئی تم اندر کیوں نہیں آۓ؟پم نے جواب دیا :کچھ اور سبب نہ تھا صرف یہ خیال ہوا کہ گھر والوں میں سے کوئی سو نہ رہا ہو۔عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ام عبد(یہ ان کی والدہ کا نام ہے) کے بیٹے کے گھر والوں کے ساتھ غفلت کا گمان کیا۔"(صحیح مسلم)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلاف صبح کے وقت کو ترجیح دیتے تهے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلاف کے نزدیک صبح کے وقت سونا مکروه ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صبح کا سونا رزق کو روکتا ہے۔ اس وقت رازق سے رزق مانگنا چاہیئے۔ کیوں کہ یہ رزق تقسیم ہونے کا وقت ہے اس لئے اس وقت سونا ممنوع ہے ۔الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو.
اسلاف میں سے کسی نے کہا "مجهے تعجب ہے اس شخص پر جو صبح کی نماز سورج طلوع ہونے کے بعد پڑهتا ہے اسے کیسے رزق دیا جائےگا۔"
اس لئے اس وقت کی نیند مجبور انسان کی نیند کی مانند ہونی چاہیئے۔کہ انسان کسی بیماری یا مجبوری کی وجہ سے ایسا کرے۔
جدید تحقیقت سے پتا چلتا ہے کہ صبح کے وقت ایک خاص گیس ہوتی ہے جس کا تناسب صبح کے وقت زیادہ ہوتا ہے اور بتدریج کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ طلوع آفتاب کے وقت انتہائی کم ہو جاتا ہے.تجربات نے ثابت کیا ہے کہ اس گیس کے اعصابی نظام پر بہت اچهے اثرات ہوتے ہیں.ہمارے نفسیاتی جذبات و احساسات پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور سوچ میں چستی پیدا کرتی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مائیر سے پوچها گیا "مسلمان ہم پر کب غالب آئیں گے؟وہ بولی جب تم مسلمانوں کو فجر کی نماز میں اس طرح دیکهو جس طرح سے وہ جمعہ کی نماز میں ہوتے ہیں تو وہ دن ہماری شکست اور ان کے غلبے کا دن ہوگا۔".
آج دنیوی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک مثلا چائنہ،انگلینڈ ،جرمنی اور ملائیشیا وغیرہ میں کاروبار اور روزمرہ کے کاموں کا آغاز صبح سات بجے کر دیا جاتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی کاروباری مراکز بند کر دیئے جاتے ہیں.جب کہ انہوں نے ہمارے دین سے ہی کامیابی کا یہ اصول سیکها ہے اور ہم اس اصول سے منہ موڑ کر تنزل کا شکار ہیں۔.
ذرا  سوچئے جس گهر میں لوگ دن چڑهے تک سوئے رہتے ہیں وہاں پر برکتوں کا نزول کیسے ہوسکتا ہے؟؟
8۔ کهانے کے دوران سنت کے آداب کا خیال رکهنا:
کهانا کهانے کے دوران سنتوں کا خیال رکهنا مثلا مل جل کر کهانا کهانا،کهانے سے قبل بسم الله پڑهنا وغیرہ کهانے میں برکت کا باعث ہے.اس بارے میں کئی احادیث ملتی ہیں۔
اکٹهے بیٹھ کر کھانا کھانا:.1
وحشی بن حرب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کے اصحاب نے کہا کہ ہم کهانا کهاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے تو آپ نے فرمایا:
«فَلَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ»
شاید تم جدا جدا اور الگ الگ ہو کر کهاتے ہو،انہوں نے کہا:جی ہاں تو آپ نے فرمایا تم اکٹهے مل کر کهانا کهایا کرو اور اس پر بسم الله پڑها کرو تمہارے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی."(سنن ابی داود:3764)

صحیح مسلم کی روایت ہے۔ حضرت جابر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ
"ایک شخص کا کهانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہے،دو کا کهانا چار کے لئے کافی ہے اور چار کا کهانا آٹھ کے لئے کافی ہو گا."
امام النووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں کهانے کے دوران ایثار پر ابهارا گیا ہے.چاہے وه تهوڑا ہی ہو کفایت کر جائے گا اور اس میں برکت پڑ جائے گی۔.
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کفایت اکٹهے کهانے کی برکت سے پیدا ہوتی ہے.جتنا زیادہ اجتماع ہوگا اتنی زیادہ برکت پیدا ہوتی جائے گی۔
ایک واقعہ جس سے صحابہ کرام کی کمال اطاعت اور ایثار کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی برکت کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گزرے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور آپ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دئیے اور جو میرے دل میں اور جو میرے چہرے پر تھا آپ نے پہچان لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا: میرے ساتھ آ جاؤ اور آپ چلنے لگے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ کہا: فلاں یا فلانی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفہ میں بھیجا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس! جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ رکھتے۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلوا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے۔ چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حقدار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب صفہ والے آئیں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمائیں گے اور میں انہیں اسے دے دوں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچائی، وہ آ گئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا لو اور اسے ان سب حاضرین کو دے دو۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑ لیا اور ایک ایک کو دینے لگا۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہو کر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ اس طرح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہو چکے تھے۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا، لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے سچ فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے رہے کہ اور پیو آخر مجھے کہنا پڑا، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب بالکل گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے دے دو، میں نے پیالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔
یوں دودھ کی قلیل مقدار ایک مجمع کے لئے کافی ہو گئی۔
اس طرح سے مل کر ایک برتن میں شریک ہونے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور اشیاۓ ضرورت کی کم تعداد بھی کافی ہو جاتی ہے۔.
دین نے تو یہ سکهایا کہ ایک ہی برتن میں کهایا جائے کیوں کہ الگ الگ گلاس اور پلیٹوں کا رواج نہیں تها.اوپر دی گئی حدیثوں سے بهی معلوم ہوتا ہے کہ کهانے پینے کے لئے الگ برتنوں کا رواج نہ تها.مل جل کر کهانے سے جذبہ ایثار اور ایک دوسرے کے لئے احترام بڑهتا ہے۔اور اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں اور معاملات میں ایک دوسرے کے لیے ایثار اور ہمدردی کے جذبات پیدا نہ ہوئے تو زندگی میں پیش آنے والے بڑے معاملات میں کیسے دوسروں کے لئے خیر خواہی اورقربانی دے سکتے ہیں۔
۔آج یہ رواج عام ہے کہ ہرشخص اکیلے کهانا کهاتا ہے۔ صدیوں سے چلے آنے والے رواج کو مغرب کی نقالی میں ختم کر دیا گیا ہے۔ آج ہر کوئی اپنی پسند کا کهانا آرڈر دے کر باہر بیٹھ کرہی کها لیتا ہے یا رات کو دیر سے آرڈر دے کر اکیلے کهایا جاتا ہے کہ کہیں کسی کو دینا نہ پڑے۔
افسوس کہ صحابہ بهوکے پیٹوں کے ساته اکٹهے بیٹھ  کر ،بانٹ کر کهانا کهاتے تهے اور ہم بهرے پیٹوں کے ساتھ کسی دوسرے کو اپنے ساتھ  شامل کرنا مناسب نہیں سمجهتے.۔

کهانے سے پہلے بسم الله پڑهنا جیسا کہ اس بارے میں حدیث پہلے گزر چکی ہے.2
اس لئے بسم الله کو چهوڑ دینا برکت کو روک دیتا ہے.یہاں تک کہ شیطان اس کهانے کو حلال کر لیتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بهی ذکر آیا.اس لئے شیطانی اثرات سے بچاو کے لئے بسم الله کا استعمال مفید ہے۔
ظاہر ہے کہ شیطان کا قرب جسے بهی ہو گا،اس سے برکت سلب کر لی جائے گی.یہی وجہ ہے کہ کهانے.پینے،کپڑے پہننے،وضو،سواری اور جماع وغیرہ سے قبل شریعت نے بسم اللہ کہنا مشروع فرمایا ہے،کیوں کہ ذکر الہی خیر و برکت کا باعث ہے اس سے شیطان بهاگتا ہے اور حصول برکت کی راہیں کهل جاتی ہیں.الله کی برکت کو کوئی چیز روک نہیں سکتی.کیوں کہ ساری برکتیں وہیں سے آتی ہیں اور ہر وه چیز جو اس کی طرف منسوب ہو،مبارک ہوتی ہے۔..


3۔اس طرح سے کهانے کو کناروں سے کهانا اور (برتن) کے وسط سے نہ کھانا:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «البَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ، وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ>>
ترمذی کی روایت ہے کہ نبی نے فرمایا:"برکت کهانے(برتن)کے وسط میں نازل ہوتی ہے تو اس کے کناروں سے کهاؤ وسط سے نہ کهاؤ۔" حدیث نمبر:1805
اسی طرح سے بیہقی اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں:
عن عبدالله بن بسر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال عن القصعة: ((كُلُوا مِنْ جَوَانِبِهَا وَدَعُوا ذرْوَتَهَا يُبَارَكْ لكم فِيهَا))، ثم قال: ((خذوا فكلوا، فوالذي نفس محمد بيده ليفتحن عليكم أرض فارس والروم، حتى يكثر الطعام، فلا يُذكر اسم الله عليه))
عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کھانے کے برتن(پیالہ) کے بارے میں فرمایا کہ اس کے کناروں سے کھاؤ اور اس کے وسط سے چھوڑ دو تمہارے لیے اس میں برکت دی جاۓ گی۔پھر فرمایا: لے لو اور کھاؤ۔
عنقریب تم روم اور فارس فتح کر لو گے حتی کہ کهانا وافر ہو جائے گا اور اس پر الله کا نام نہیں لیا جائےگا۔"(حدیث نمبر:14653،سلسلہ الصحیحہ:393)
شیخ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نبی کے معجزوں (پیشن گوئیوں) میں سے ایک ہے.ہمارے اسلاف نے روم اور فارس کوفتح کیا. بہت سے سرکش ہو گئے تو انہوں نے شریعت سے اور اس کے آداب سے اعراض کیا.انہی میں بسم الله پڑھ کر کهانے کی ابتدا کرنا وغیرہ انہوں نے اس کو بهلا دیا حتی کہ کوئی بهی ان میں ذکر کرنے والا نہ تها.
4۔انگلیاں اور برتن چاٹنا
صحیح مسلم کی روایت میں مذکور ہے:
أنس -رضي الله عنه- أَنَّ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلاَثَ، وَقَالَ:إِذَا سَقطَت لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا، وَلاَ يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلُتَ القصْعةُ،قَالَ: فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْرُونَ فِي أَيِّ طَعَامِكُمْ الْبَرَكَة
انس رضي الله عنه  بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب کھانا کھا لیتے توتین مرتبہ اپنی انگلیاں چاٹتے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے اسے چاہیئے کہ اس کو صاف کرکے کھا لے اور اسے شیطَان کے لئے نہ چھوڑے اور ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنا پیالہ(برتن) چاٹیں اور فرمایا کہ بیشک تم نہیں جانتے کہ کھانے کہ کس حصہ میں برکت ہے۔(حدیث نمبر:2033)

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ، فَإِنَّهُ لاَ يَدْرِي فِي أَيَّتِهِنَّ الْبَرَكَةُ
کہ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیوں کہ وہ نہیں  جانتا کہ کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے۔"۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:2035)

امام النووی رحمه الله اس قول "    "کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ انسان کے سامنے جو کهانا ہوتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ برکت کس حصہ میں ہے۔ جو کها لیا اس میں برکت ہے یا جو انگلیوں پر لگا ہوا ہے اس میں برکت ہے یا جو کهانا باقی پیالہ میں بچا ہے اس میں برکت ہے یا جو لقمہ نیچے گر گیا اس میں برکت ہے.تو انسان کو چاہیئے کہ ان سب کی حفاظت کرے کھانے کی قلیل مقدار بھی ضائع نہ کرے تاکہ برکت حاصل کر سکے.برکت کی اصل یہ ہے زیادہ ہونا ،خیرو بهلائی اور فائدوں کاحصول_والله اعلم_کہ جس سے غذائیت حاصل ہو ،انسان تکلیف سے بچا رہے اور الله کی اطاعت پر مضبوطی سے جما رہے یا قوی ہو جائے۔
امام البانی رحمه الله  اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ کهانے کے بعد برتن اور انگلیاں چاٹنا کهانا کهانے کے آداب میں سے ایک اچها ادب ہے.مگر آج مغرب اور یورپی ممالک کے مکینوں کی عادات سے متاثرہ مسلمان اس ادب کو بے ادبی گردانتے ہیں .

کهانا جب پک جائے یا گرم ہو تو تهوڑی دیر چهوڑ دینا یہاں تک کہ اس کی حرارت ختم ہو جائے۔
مسند احمد میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ ثرید پکاتیں تو اسے ڈھانپنے کا حکم دیتیں حتی کہ اس کا جوش و حرارت اور دھواں ختم ہو جاتا اور فرماتیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ"ھو اعظم للبَرَكَة "ایسا کرنا بڑی برکت کا باعث ہے۔(مسند احمد:350/6)


آج یہ رواج عام ہے کہ کهانا گرم گرم کهایا جاتا ہے اس مقصد کے لئے ہاٹ پلیٹ اور مختلف اقسام کے برتنوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور اگر کهانا تهوڑا تهنڈا ہو جائے تو برا محسوس کیا جاتا ہے۔
کهانے کا مقصد تو یہ ہے کہ انسان کهانا کها کر اس سے غذائیت حاصل کرے یعنی طاقت حاصل کرنے کے لئے کهانا ایک سبب ہے اور اس سبب میں اثر صرف الله کی ذات ڈالتی ہے.ہم نے اس سبب کو ہی کافی سمجھ لیا ہے.مشاہدہ یہ ہے کہ دور حاضر میں کهانے پینے کی چیزیں پہلے سے زیادہ کهائی جاتی ہیں چاہے دوده،گوشت،پهل سبزیاں،مشروبات ہو یا فاسٹ فوڈ۔ سب کا استعمال پہلے کی نسبت زیادہ ہو گیا ہے.مگر ہر شخص غذائیت کی کمی کا شکار ہے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے چاہے چهوٹی عمر کا بچہ ہو یا نوجوان..
برکت سے مراد یہ بھی ہے کہ اس کهانے سے میسر آنے والی صحت اور توانائی کو نیکی اور خیر کے کاموں میں استعمال کریں گے اور شیطانی اثرات کے نتیجہ میں ہم اپنی سوچ اور توانائی کو برائی کے ہاته مضبوط کرنے سے بچے رہیں گے.

9۔استخاره کرنا:
تمام اہم امور میں استخارہ کرنا خیروبرکت کا باعث ہے .نبی کریم اس کی اس طرح تعلیم دیتے تهے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکهاتے.آپ فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑهنے کے بعد یہ دعا پڑهو:
للَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي  فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بہ
'' اے اللہ ! یقینا میں (اس کام میں ) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور ( حصول خیر کے لئے ) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے استطاعت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں ، بے شک تو ( ہر چیز پر) قادر ہے اور میں ( کسی چیز پر ) قادر نہیں ۔ تو ( ہر کام کا ) انجام جانتا ہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے ۔ الہی ! اگر تیرے علم میں یہ کام ( جس کا ارادہ میں رکھتا ہوں ) میرے لئے میرے دین ، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر اور آسان کر ، پھر اس میں میرے لئے برکت پیدا فرما ۔ اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے میرے دین ، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس ( کام ) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لئے بھلائی مہیا کر جہاں ( کہیں ) بھی ہو ۔ پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے ۔
10۔ الله تعالی نے رزق کے حوالے سے جو تقسیم کی ہے اس پر راضی ہو جانا: ۔
حدیث میں آتا ہے:
بیشک الله تعالی نے اپنے مومن بندے کو جو کچه عطا کیا ہے اس کے ذریعے سے آزمائش کرتا ہے،تو جو کوئی الله کی تقسیم پر راضی ہو گیا اس کو برکت دی جاتی ہے اور زیادہ وسعت دی جاتی ہے.اور جو راضی نہیں ہوتا اس کو برکت نہیں دی جاتی.(مسند احمد:20279)
ہم  نعمتوں کے لحاظ سے ہر وقت اپنے سے اوپر والے کو دیکهتے ہیں اور دوسروں کے پاس موجودہ نعمتوں کو دیکھ کر غم اور ناشکری کا شکار رہتےہیں۔ جبکہ ہمارے دین نے تو ہمیں یہ اصول دیا ہے  حدیث میں آتا ہے کہ:
(نعمتوں کے لحاظ سے )اس کی طرف دیکهو جو تم سے کم تر ہے  اور اس کی طرف نہ دیکهو جو تم سے برتر ہے کیوں کہ یہ زیادہ لائق ہے کہ اس سے تم اپنے اوپر الله کی نعمت کو حقیر نہیں جانو گے."(صحیح مسلم:2963)

اس اصول کو الٹ دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے  کہ انسان کو جو اللہ نے بے شمار نعمتیں اور رزق عطا کیا ہوتا ہے اسے ان کا ادراک نہیں ہوتا اور اللہ نے رزق کی جو تقسیم لکهی ہے اس پر راضی نہیں ہو پاتا حالانکہ ہم صبح شام روزانہ دعاوں میں اقرار کرتے ہیں:
رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا
"میں الله کے رب ہونے،اسلام کے دین ہونے اور محمد کے نبی  ہونے پر راضی ہو"
11۔انفاق فی سبیل الله اور صدقہ کرنے سے مال میں اضافہ اور برکت پیدا ہوتی ہے:۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَمَآ أَنفَقۡتُم مِّن شَىۡءٍ۬ فَهُوَ يُخۡلِفُهُۖ
"اور تم جو بهی چیز خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے۔"(السبا:39)
اور حدیث قدسی میں الله تعالی فرماتے ہیں:
" يَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ "
اے آدم کے بیٹے تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا(میں تجھ کو دیئے جاؤں گا)"(صحیح مسلم:393)

سیدنا ابو ہریره بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب بندے صبح کو اٹهتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے واے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ روکنے والے(بخیل) کے مال کو تلف و برباد کر دے."(صحیح بخاری)

12۔ بڑوں کی صحبت:
جیسا کہ نبی   نے فرمایا: الْبَرَكَةُ مَعَ أَكَابِرِكُمْ
"برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے۔"
گھروں میں بزرگوں کی موجودگی باعث برکت ہے بظاہر وہ گھر کے کاموں میں اور مالی لحاظ سے معاون نہ بھی ہو مگر پھر بھی برکت کا باعث تو ہے اس لئے انہیں بوجھ نہیں سمجھنا چاہیے۔آج سے چند سال پہلے ہر اہم فیصلہ،معاملہ اور کام کرتے ہوئے بڑوں کی موجودگی وصحبت کو  باعث برکت سمجها جاتا تها مگر آج اس پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔۔
13۔ صلہ رحمی کرنا:
أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جاۓ تو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔"
(صحیح البخاری:5986)
 مذکورہ بالا حدیث یہ خبر دیتی ہے کہ جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق اور عمر میں برکت دیتے ہیں۔ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ کر دیا جاۓ تو اس کا طریقہ اللہ کے رسول نے بتا دیا کیوں کہ صلہ رحمی ایک ایسا فعل ہے جو اللہ کی رحمت اور برکت کا باعث ہے اور انسان سے دنیوی آفات ومصائب کو دور کرنے کا سبب بنتا ہے کیوں کہ اگر یہ وصف نہ ہو تو معاشرہ کٹ جاۓ گا،افراد بے سہارا اور تنہا رہ جائیں گے،برکت اور سکون چھن جاۓ گے۔اس لیے صلہ رحمی کرنا شرعی لحاظ سے واجبات میں سے ہے۔
صلہ رحمی سے مراد یہ ہے کہ نسبی اور سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ  احسان کیا جاۓ،ان کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کا معاملہ کیا جاۓ اور ان کے حالات کی دیکھ بھال اور پاسداری کی جاۓ۔"صلہ رحمی یہ نہیں کہ  اچھے سلوک کے  بدلے میں اچھا سلوک کیا جاۓ  بلکہ جو کاٹے اس سے بھی  جڑا جاۓ اور اچھا  سلوک کیا جاۓ۔۔


اس کے علاوه برکت کے حصول کے لیے اور بهی بہت سے اسباب ہیں مگر مضمون کے اختصار کو مد نظر رکهتے ہوئےہم مختصرا ان کا تذکرہ کریں گے:.

فرض نماز کی ادائیگی:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اور اپنے گھر والوں کو نماز کا  حکم دو اور اس پر خوب پابند رہہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے"
سحری کھانا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً»
"سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت  ہوتی ہے۔"(صحیح بخاری:1923)
کهجور کا درخت:
کھجور کا درخت برکت والا ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ لَمَا بَرَكَتُهُ كَبَرَكَةِ المُسْلِمِ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَعْنِي النَّخْلَةَ،
"بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کی برکت  مسلمان  کی برکت کی طرح ہوتی  ہے۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ  میرے خیال کے مطابق آپ کھجور کے درخت کی طرف اشارہ کررہے تھے"۔(صحیح  بخاری:5444)

زیتون کا استعمال:
رسول اللہ نے فرمایا
كُلُوا الزَّيْتَ ،فَإِنَّهُ مُبَارَكٌ وَائْتَدِمُوا بِهِ، وَادَّهِنُوا بِهِ، فَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ»
"زیتون کھاؤ کیوں کہ  یہ بابرکت ہے اور اس کا سالن بناؤ اور اس کا تیل استعمال کرو کیوں کہ یہ ایک بابرکت درخت سے نکلتا ہے۔"(سنن الدارمی:2096)
گهوڑا رکهنااور بکری پالنا:
سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:
البَرَكَةُ فِي نَوَاصِي الخَيْلِ
"گھوڑے کی پیشانی میں برکت بندھی ہوئی ہے "۔(صحیح بخاری:2851)
ایک مرتبہ نبی کریم  نے ام ہانی سے کہا:
اتَّخِذِي غَنَمًا فَإِنَّ فِيهَا بَرَكَةً
"تو بکریاں رکھ کیوں کہ ان میں برکت ہے۔"(ابن ماجہ:2304)
عروہ بارقی رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
الْإِبِلُ عِزٌّ لِأَهْلِهَا، وَالْغَنَمُ بَرَكَةٌ، وَالْخَيْرُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
"اونٹ  رکھنا باعث  عزت و رفعت ہے اور بکریاں رکھنے سے برکت پیدا ہوتی ہے اور قیامت تک کے لیے گھوڑوں کی پیشانی   میں خیر بندھی ہوئی ہے"۔(ابن ماجہ؛2305)

زمزم کا پانی:
سیدناابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ نے فرمایا:تم یہاں کب آئے؟میں نے عرض کیا تیس دن رات سے یہاں ہی پڑا ہوں۔فرمایا تیس دن رات سے تم یہاں ہو؟تو  میں نے عرض کیا جی ہاں ۔فرمایا تمہارا کھانا کیا تھا ؟تو میں نے عرض کیا میرے کھانے پینے کے لئے زمزم کے پانی  کے سوا کوئی چیز نہ تھی اور اس کے باوجود میں پہلے سے زیادہ موٹا  تازہ ہوں یہاں تک کہ میری بغلوں کی اطراف میں گوشت بھر گیا ہے اور میں اپنے جگر پر بھوک کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں   پس رسول اللہ نے فرمایازمزم کا پانی برکت والا ہے:
إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، وَهِيَ طَعَامُ طُعْمٍ، وَشِفَاءُ سُقْمٍ
زمزم کا پانی برکت والا ہے اور کھانے کا کام بھی دیتا ہے اور بیماری سے شفاء کا ذریعہ بھی ہے۔"(مسند ابو داؤد طیالسی:457)(صحیح مسلم بدون لفظ شفاء سقم:2473)
 توکل علی اللہ:
ارشاد ربانی ہے:

"اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے  کافی ہے۔(الطلاق:03)
سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر تم اللہ پر اس طرح   توکل کرو،جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی وہ ایسے ہی رزق دے گاجیسے پرندوں کو دیتا ہے وہ صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر سیر ہو کر آتے ہیں۔"(صحیحابن ماجہ:4164)
استغفار پر مداومت وہمیشگی کرنا باعث برکت ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگ لو یقینا وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر برستی ہوئی بارش اتارے گا اور مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گااور تمہیں باغات عطا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔"(نوح:10ـ12)
غرض دین پر جتنا جتنا بهی عمل کرتے جائیں گے اتنی زیادہ ہماری زندگیوں میں برکتیں شامل ہوتی جائیں گی۔ اگر ان اسباب کو الٹ دیا جائے تو  برکت کے خاتمہ کے اسباب بن جاتے ہیں۔.
گناه برکت کو زائل کرنے کا سبب ہے کیوں کہ گناہوں کی موجودگی میں نیکی کے ثمرات ظاہر نہیں ہوا کرتے۔ کیوں کہ گناه کی سزا یہ بهی ہے کہ عمر،رزق،علم وعمل اور عبادت کی برکتیں چهن جاتی ہیں .دین و دنیا کی خیر و برکت گناه گار سے سلب کر لی جاتی ہے.نافرمان بندے کو آپ سب سے زیادہ بے خیر و بے برکت پائیں گے۔
نیک اعمال کرنے کے ساتھ  ساتھ  ہم اپنی زندگیوں میں جن گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں ان کو چهوڑنے کے لیے آماده نہیں اور پهر پریشان ہوتے ہیں کہ زندگی میں سکون اور اطمینان نہیں۔کیونکہ ہماری نیکیاں اور گناہ کرنے کی مثال ایسی ہے کہ دن میں چند نیک کام کئےمگر ساتھ ہی گناہ بھی کر لئےتو یہ ایسے ہے کہ کوئی سارا دن ٹائیپنگ کرتا رہےمگر آخر میںundo کا بٹن دبا دے تو آخر میں صفحہ خالی رہے گا اسی طرح سے نیکیاں کرنے اور برکت کے اسباب پر عمل پیرا ہونے سے اسی صورت میں فائدہ ہو گا۔جب گناہوں سے اپنے دامن کو پاک کرنے کی کوشش کی جاۓ گی۔ اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ برکت کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ برکت رحمت کے فرشتے لے کر نازل ہوتے ہیں اور جس گھر میں تصویر اور کتا ہو وہاں برکت کیسے نازل ہو سکتی ہے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جس گهر میں تصویر اور کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے"
اب اگر کو ئی شخص برکت کے حصول کے تمام اسباب پر عمل پیرا ہو مگر ساتھ میں گھر میں تصویریں یا کتا موجود ہو تو گھر میں برکتیں اور رحمتیں کیسے نازل ہو سکتی ہے؟؟
یعنی برکتیں سمیٹنے کے لیے یہ بات بہت اہمیت  رکھتی ہے کہ ہم برکتوں کے نزول میں حاٰئل ہر رکاوٹ دور کریں۔بیوقوف
جیسے دیوار پر نیا رنگ کرنے کے لیے پہلے پچهلے رنگ کو اتارنا پڑتا ہے ورنہ دوسرا رنگ پائیدار نہیں ہوتا ایسی عمارت پر رنگ کرنے والے کو بوقوف سمجها جائے گا۔ اس لیے ہماری زندگیوں میں گناہوں کا جو رنگ لگا ہوا ہے اگر اس کو اتاریں گے تو نیکیوں کا رنگ خودبخود ظاہر ہو جائے گا کیونکہ جب گناہوں کی نحوست سے عمارت کمزور ہو تو پهر نفل اور تسبیحات سے اس پر جتنا بهی رنگ و روغن کر لیں مضبوط نہیں ہو گا.اس لیے کوئی گهر،سوسائٹی،کوئی ملک یا انسان اگر چاہے کہ اسے برکتیں حاصل ہو جائیں تو اپنی زندگی کو گناہوں سے بچایا جائے کیونکہ گناہوں والی زندگی میں برکتیں نہیں اترا کرتیں.آج ہماری زندگیوں میں ہر چیز کی کثرت ہے،گهروں کی،کمروں کی،اےسی کی،کپڑوں کی اور تحفوں اور ہدیوں کی بهی کثرت ہے.ہر چیز وافر اور کثیر مقدار میں موجود ہے لیکن ہر چیزبرکت سے خالی ہے.سب سہولتوں کے باوجود دلوں میں بے چینیاں اور اطمینان و سکون کی دولت سے محروم ہیں ۔ہم مال و دولت کی گنتی بڑھانے میں دن رات مصروف ہیں ۔لیکن یہ سوچنے  کی فرصت نہیں کہ گنتی کے اس اضافے نے حقیقی راحت اور خوشی میں کتنا اضافہ کیا۔
بعض مرتبہ دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو بہت سے ظالم اور بددیانت لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے مزے کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور ظلم و بددیانتی نے ان کی زندگی میں کوئی کمی نہیں کی ۔لیکن ہم یہ سوچتے ہوۓ غلطی کرتے ہیں کہ خوشی اور راحت کے اسباب کو ہی راحت سمجھ بیٹھتے ہیں .یعنی کسی شخص کا شاندار بنگلہ،خوبصورت گاڑی اور قیمتی سامان دیکھ کر فرض کر لیتے ہیں کہ وہ بڑے مزے میں ہوگا،حالاں کہ لذت و راحت تو درحقیقت ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے جس کا اندازہ ظاہری حالات سے نہیں لگایا جا سکتا۔یعنی  دنیا اور آخرت میں اس کا انجام بھی درست ہو اس لئے برکت کے مفہوم میں صرف وقتی خوشی اور اطمینان داخل نہیں بلکہ اس راحت و خوشی کا انجام بخیر ہونا بھی ضروری ہے یعنی  دنیا اور آخرت میں اس کا انجام بھی درست ہو ۔
دراصل انسان  کے پاس وہ  حواس،صلاحیتیں  اور عقل ودانش نہیں  کہ  وہ اس دنیا میں یہ جان سکے  کہ کیا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں  یا  ایسا کوئی پیمانہ نہیں کہ  یہ جان سکے کہ میری زندگی برکت  سے بھرپور ہے یا نہیں  دراصل یہ دنیا دارالجزاء ہے ہی نہیں بلکہ دارالعمل ہے ۔ ہمارا کام   شریعت میں بتائی گئی  ہدایات کی  مطابق  برکت کے حصول کے لئے کوشش کرنا ہے  کوشش اور صرف کوشش۔تمام امور میں برکت کا سب سے بڑا ثمرہ یہ ہے کہ اس کو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں استعمال کیا جاۓ۔اس لیے نیکی یہ ہے کہ زندگی میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو اور اگر خدانخواستہ ہو جائے تو پهر اس پر اصرار نہ ہو اس کی تاویل نہ کی جائے کیونکہ گناہ کرنا بری بات ہے اور گناہ کرکے اس پر فخر کرنا زیادہ بری بات ہے.
اللہ تعالٰی ہمیں حق بات دکھاۓ اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ اور اخلاص کے ساتھ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ہمارے نیک اعمال میں برکت ڈال دے اور ہماری زندگیوں کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے۔(آمین)
وما علینا الا البلاغ

تحریر:سارہ اقبال

No comments:

Post a Comment