آخرت کی تیاری دنیوی امتحانات کے آئینے میں
زندگی کیا ہے؟ میں اس دنیا میں کیوں آیا
ہوں؟میری منزل کیا ہے؟میرے مرنے کے بعد کیا ہو گا؟یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر شخص کے
ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، وہ ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ان کے جوابات
تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، خواہ وہ دنیا کےکسی بھی مذہب سے اور کسی بھی خطےسے تعلق
رکھتا ہو ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سوالات کا ذکر کرکے جواب بھی دے دیا
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا
خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ [المؤمنون: 115]
تو کیا تم نے
گمان کر لیا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں
لوٹائے جاؤ گے۔
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ
وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
۔
وہ جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا،تاکہ تمہیں
آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ
اچھا ہے اور وہی سب پر غالب،بے حد بخشنے والا ہے۔
یعنی ہماری آزمائش مقصود ہے اور یہ پوری زندگی دراصل ہمارے لئے امتحان ہے۔امتحان ایک ایسی چیز ہے جس
سے ہم دنیا میں بھی گزرتے ہیں ایک طالب علم کی حیثیت سے ہر شخص کو کئی قسم کے
امتحانات سے واسطہ پڑتا ہے۔ مڈٹرم ،ماہانہ ،سالانہ اور اس کے علاوہ کئی قسم کے
ٹیسٹ وغیرہ دینا پڑتے ہیں۔اور ان میں سے اس پیپر یا ٹیسٹ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس کے فائنل پر زیادہ
اثرات ہو یعنی جو ہماری کامیابیوں پر براہ راست اثر انداز ہوں۔اور اسی اہمیت کے
پیش نظر بہت سی دنیا کی سرگرمیوں کو ترک کیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں ہم ہر صورت ناکامی سے بچنا
چاہتے ہیَں۔ ہم مسلمان ہونے کے ناطے آخرت
کی کامیابی اور نا کامی پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر کیا اس ناکامی سے بچنے کے لئے
حقیقی معنوں میں کوششیں کیں؟؟کہیں ہم اپنے اس ایمان میں بے یقینی کا شکار تو نہیں؟
-اسکول،کالج اور یونیورسٹی لائف میں جب امتحانات
دینے کی باری آتی تھی تو گھر والوں اور اساتذہ کی طرف سے کئی نصیحتیں کی
جاتی تھیں اور بار بار ان کو دہرایا جاتا
تھا۔ تاکہ بھول نہ جائیں۔اور امتحانات کے دوران paper attempt کرنے کے بعد دوبارہ سوالات کرکےاس بات کی یقین دہانی کی
جاتی تھی کہ دی گئی ہدایات پر عمل کیا یا نہیں۔۔۔
1.دنیا کے امتحان کی تیاری کے وقت ان سوالات کو زیادہ توجہ اور اہمیت
دی جاتی جن کے پیپر میں آنے کے زیادہ امکانات ہوں۔ بعد میں باقی سوالات اور اسباق
تیار کئے جاتے جب کہ آخرت کا پرچہ تو آؤٹ ہے کہ سب سے پہلے نماز کا سوال ہو گا ۔اسی
طرح سے قبر جو کہ آخرت کی پہلی منزل ہے اس مرحلے کے تمام سوالات اور ان کی تفصیل
بتا دی گئی۔یہ سوالات ایسے ہیں جو ہر شخص سے پوچھے جانے ہیں اور کوئی بھی اس سے
مستثنیٰ نہیں۔۔۔
مَنْ رَبُّكَ؟ تمہارا رب کون ہے؟
مَا دِينُكَ؟ تیرا دین کیا ہے؟
مَن نبيكَ؟ تمہارا نبی کون ہے؟
بظاہر یہ سوالات
بہت سادہ اور ان کے جوابات بہت آسان ہیں کہ
میرا رب اللہ ہے،میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
مگر جوابات وہی شخص دے سکے گا جس نے عملا اللہ کو اپنا رب مان کر زندگی گزاری ہو
گی ، وہی کہہ سکے گا کہ میرا رب اللہ ہے جس کا طرز معاشرت اور طرززندگی قرآن وسنت
کے مطابق ہو گا وہی جواب دے سکے گا کہ میرا دین اسلام ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو اپنا رہنما اور رول ماڈل بنا کر زندگی گزاری ہو وہی کہہ سکے گا کہ میرے نبی محمد ہیں۔ کیوں کہ ان
جوابات کا تعلق معلومات سے نہیں بلکہ عمل سے ہے۔یہ سب معلومات تو کافروں کے پاس
بھی ہیں مگر عمل ان سب کے برعکس ہونے کی وجہ سے جواب نہ دے سکیں گے۔۔۔
اخروی امتحان کی
ساری تفصیل معلوم ہونے کے باوجود ہم نے کتنی تیاری کی؟ہمیں ان سوالات کے جوابات کی
کتنی فکر ہے؟؟
2:ایک نصیحت یہ ہوتی تھی کہ paper solve کرنے کے لیے ہر سوال کو مناسب وقت دینا تاکہ
تمام سوال یکساں طریقے سے حل کر سکو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ چند سوال تو بہت بہتر حل
کئے ہوں اور باقی کے لئے وقت اور ہمت نہ بچے۔۔ایسا ہونے کی صورت میں اچھے نمبر
حاصل نہیں کئے جاسکتےچاہے حل کئے جانے والے سوالات کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہو۔
اسی طرح دنیا کے امتحان میں کامیابی کے لئے بھی
وقت کی تنظیم سکھائی گئی ہے۔حج،نماز،روزہ سب وقت کے دائرے میں محدود ہے، اگر اپنے
وقت پر نہیں تو محض ریاضت اور مشقت ہے۔نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کسی ایک چیز پر سارے
وقت کو صرف کر کے باقی سب کو نظر انداز کر دیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے چند
عبادتوں کو وقت کے دائرے میں مقید کرکے زندگی کو منظم کرنا سکھایا ،جیسے دوران
پرچہ بار بار نگاہ گھڑی پر پڑتی ہے کہ کہیں وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے اور بعد میں مینیج کرنے میں مشکل نہ ہو۔اس لئے یہ ممکن نہیں کہ دنیا کی فکر اور اسی کے
مسئلے حل کرتے رہے،ساری طاقت اور وقت اس پر لگا دیا جائے اور دین کو یکسر نظرانداز
کر دیا جائے۔اگر ایسا کرنے کی حماقت کی تو ساری محنت اکارت جائے گی، پھر مطلوبہ
نتائج نہیں حاصل ہوں گے بلکہ بری طرح سے فیل ہوجانے کا خدشہ ہے
3: paper حل کرنے کے بعد اس کو دوبارہ ضرو پڑھنا کیوں کہ دوبارہ پڑھنے سے بعض اوقات انسان
کو خود اپنی غلطیاں نظر آجاتی ہیں یوں اصلاح کا موقع مل جاتا ہے اور نمبر کٹنے سے
بھی انسان بچ جاتا ہے۔
اسی طرح ہمیں بھی محاسبہ نفس کرنا سکھایا گیا کہ
رات کو انسان جب بستر پر لیٹے تو سوچے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔رب کے حضور اپنے
گناہوں کو پیش کر کے ان کو مٹا ڈالنے کی التجا کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔جیسا کہ
روزانہ رات کو سونے سے پہلے سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات پڑھنے کی ترغیب دلائی
گئی ہے جن میں اللہ سے یہی دعا مانگی جاتی ہے۔
رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا
إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا
اے ہمارے رب!ہم سے مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول
جائیں یا خطا کر جائیں۔(البقرۃ:۲۸۶)
یعنی
اپنے دن بھر کے گناہوں کو یاد کر کے اللہ سے استغفار کی جائے ۔
آخرت اور قبر کا بار بار تذکرہ کرکے اپنے کئے
ہوئے اعمال پر نظر دوڑانے کو کہا گیا۔قیامت کے سوال اور قبر کے سوال کی تذکیر کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان یہ سوچے کہ
وہ جانے یا انجانے میں کچھ غلط تو نہیں کر بیٹھا۔۔۔مگر میڈیا اور سوشل میڈیا
کے اس دور میں ہر شخص دوسروں کا محاسبہ اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے اور محض اسی
کو سوچنے میں مصروف ہے۔
4: پیپر
کی تیاری کے لیےنصابی کتب کا تعین کیا جاتا ہے اور پیپر کے سوالات اسی میں سے آتے ہیں۔ past papers اورguidebooks دیکھنے کو کہا جاتا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کس قسم کے سوالات پوچھے جاتے
ہیں، ان کو حل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور درست جواب وہی ہوتا ہے جو نصاب کی کتابوں
میں موجود مواد کے مطابق ہو ،کامیاب طالب علموں سے ملاقات کرنے کو کہا جاتا ہے
تاکہ ان کی کامیابیوں کے راز کو جانا جا سکے
۔اسی طرح ہمیں بھی سوالات کے
جوابات دینے کے لئے(نصاب) قرآن حکیم اور حدیث نبوی دی گئی ہے اور سوالات اسی میں سے
کئے جائیں گے۔
کیا کبھی آخرت کے
پرچے کے حوالے سے ایسی کوشش اور محنت کی؟؟؟
کیا کبھی ہم نے اخروی لحاظ سے کامیاب لوگوں کے حالات زندگی
جاننے ،ان کے کامیابی کے اصولوں کو جاننے اور ان کو اپنانے کی سنجیدہ کوششیں کیں؟ کبھی
قبر اور آخرت کے سوالات جاننے کی کوشش کی؟؟؟
اگر نہیں!!!!!تو پھر میں اور آپ ابھی تک ابن
الدنیا(دنیا کا بندہ)ہیں ابن الآخرۃ (ٓآخرت کا بندہ) نہیں بنے۔۔۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ
لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ
میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم
لوگوں نے ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو کبھی نہ گمراہ ہو گے
یہ گمراہی محض دینی عقائد، عبادات اور معاملات
کے لحاظ سے گمراہی نہیں بلکہ دنیوی گمراہی بھی ہے چاہے وہ دنیا میں ترقی اور برتری
کو کھو دینے کی شکل میں ہو یا ذلت، رسوائی اور فسادات کی شکل میں ہو۔
4.عام طور پر امتحانات میں آنے والے پیپرز دو یا دو سے زیادہ حصوں میں تقسیم
ہوتے ہیں ہر حصہ میں سے خاص تعداد میں سوال حل کرنے پر ہی نمبر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ایسا ممکن نہیں کہ
محض ایک حصہ میں سے ہی سارے سوال حل کرکے یہ
سمجھا جائے کہ اس حصہ سے زیادہ تعداد میں سوال حل کرنے پر ہی سارے نمبر مل جائیں
گے اور باقی کا پرچہ انسان attempt ہی نہ کرے تو یہ محض بیوقوفی اور خسارے کا سودا ہے کیونکہ ہر حصے کی اپنی
اہمیت ہے ۔
کچھ اسی طرح سے ہماری زندگی کا امتحان ترتیب دیا
گیا ہے۔ہماری زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد دو حصوں پر مشتمل ہے۔ان حقوق
کا تعین اللہ سبحانہ و تعالی نے خود ہی کردیا کہ ان میں فرائض کیا ہیں اور نوافل
کیا ہیں۔ہم انسانوں کو اختیار نہیں دیا گیا چنانچہ ہم یہ تعین نہیں کرسکتے کہ حقوق
اللہ پر توجہ دینی ہے یا محض حقوق العباد پورے کر دینا کافی ہے!!!مگر ہم نے حقوق
کی خود ساختہ تقسیم کر رکھی ہے کوئی محض حقوق اللہ پر توجہ دیتا ہے جب کہ اکثریت صرف حقوق العباد
پورے کرنے کو ہی نجات کے لئے کافی سمجھتی ہے اور یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ
حقوق اللہ کی خیر ہے حقوق العباد پورے ہونے چاہیئے۔حقوق اللہ تو اللہ معاف کر دے
گا مگر حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔اس لئے
صرف حقوق العباد پورے کرنے کی فکر کرنی چاہیئں۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ " حقوق اللہ اور حقوق
العباد میں سے کس چیز کو اسلام کے نقطہ نظر سے فوقیت حاصل ھے ؟
تو مولانا رحمہ اللہ نے فرمایا : " اسلامی نقطہِ نظر
سے حقوق اللہ کو حقوق العباد پر لازمًا فوقیت حاصل ھے ۔ اسلام میں حقوق کا تعین دو
بنیادوں پر کیا گیا ھے ۔ ایک یہ کہ جس کا جس قدر احسان آدمی پر زیادہ ھے اُس کا حق
بھی اُتنا ہی زیادہ ھے ۔ دوسرے یہ کہ جس حق کو تلف کرنا زیادہ موجبِ فساد ہو اُس کی
حفاظت بھی اُتنی ہی زیادہ اہم ھے ۔ اِن دونوں بنیادوں کے لحاظ سے حقوق اللہ ، حقوق
العباد پر فائق ہی ہونے چاہییں۔
اللہ تعالیٰ اس بات کو کبھی
معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ۔ اس کے سِوا دوسرے جس گناہ کو جس کے لئے
وہ چاہے معاف کر دے ۔ ( النّساء :48
احادیث میں شرک باللہ کو اکبرُ
الکبائر قرار دیا گیا ھے ۔ سورۃ لقمان میں بتایا گیا ھے کہ انسان پر والدین کا حق دوسرے
تمام انسانی حقوق سے فائق ھے ۔ مگر اللہ کا حق والدین کے حقوق سے بڑھ کر ھے ۔ حتیٰ
کہ اگر والدین اولاد پر دباؤ ڈالیں کہ وہ شرک کا ارتکاب کرے تو اولاد کو صاف انکار
کر دینا چاہیے ۔ آیات 14-15
احادیث میں یہ روایت آئی ھے
کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جب مسلمان ھوئے تو اُن کی ماں نے قسم کھائی کہ جب تک تُو
محمّد ﷺ کا انکار نہ کرے میں نہ کھاؤں
گی نہ پیوں گی اور نہ سائے میں بیٹھوں گی ۔ اِس پر حضرت سعدؓ پریشان ھوئے اور نبیؐ
سے ماجرا عرض کیا ۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر وہ مَر بھی جائے تو تم اسلام سے روگردانی
اختیار نہ کرو ۔
ویسے بھی یہ بات خلافِ عقل
معلوم ہوتی ھے کہ انسان پر انسان کا حق خدا کے حق پر مقدّم ہو ۔ یہ الگ بات ھے کہ اللہ
تعالیٰ بندوں پر رحم فرما کر اپنے کسی حق میں بندوں کی خاطر کمی کر دے ۔ مثلًا اگر
کسی شخص کے والدین ضعیف ہوں اور اُن کی دیکھ بھال کرنے کے لئے اُس کا گھر پر رہنا ضروری
ہو اللہ اور اُس کے رسولؐ نے اسے یہ حکم دیا ھے کہ وہ اُن کی خدمت کے لئے گھر پر رہے
اور حج اور جہاد کے لئے نہ جائے ۔ لیکن اِس طرح کی باتوں سے یہ نتیجہ نکالنا کسی طرح
درست نہیں کہ بندے کا حق خدا کے حق پر مُقدّم ھے ۔
"
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ مکاتیبِ سیّد مودودی
یعنی (اللہ اور بندوں کے حقوق میں سے) دونوں کے
فرائض کو پہلے پورا کرنے کی فکر ہونی چاہیئے ایسا نہیں ہے کہ ایک کے تو فرائض اور
نوافل دونوں پورے ہو رہے ہوں مگر ساتھ ہی دوسرے کے فرائض سے غفلت برتی جا رہی ہو ۔
5: ایک شخص کمرہ امتحان میں تو بیٹھ جائے لیکن اس کے پاس کاغذ اور
قلم نہ ہو تو وہ پرچہ حل ہی نہیں کر سکے گا .کمرہ امتحان میں جانے سے پہلے فالتو پیپر
اور کتابیں باہر چھوڑ کر جاتے ہیں۔اسی طرح فالتو چیزوں سے جان چھڑا لینا ہی بہتر ہے
۔ انسان کو اس دنیا
سے صرف اتنا فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے کہ وہ ضرورت کی چیزیں لے کر اپنے اعمال کی
تکمیل کرے اگر زائد چیزیں لے گا تو ابن الدنیا بن جائے گا، اس لیے ضرورت سے زائد
مال ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کا حکم ہے اور ضرورت سے زائد اشیا ترک کر دی جائیں
۔۔
6:کمرہ امتحان میں ہر طالب علم اپنا اپنا پیپر حل کرنے میں مصروف ہوتا
ہے،گو قریب قریب بیٹھے ہوتے ہیں مگر ایک( ذہین ) طالب علم دوسرے طالب علم میں کوئی
خاص دلچسپی نہیں لیتا اور نہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ کیسے پیپر حل کر کررہا ہے۔کیوں کہ
اس کو سوالات کے جوابات معلوم ہوتے ہیں اور وقت محدود ہونے کی وجہ سے اس کو اپنے
پیپر کی فکر ہوتی ہے۔
اسی طرح اس زندگی میں بھی جس شخص کو آخرت میں اپنی جواب دہی کا خوف
ہو اسے اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیئے نہ کہ دوسروں میں دلچسپی لے کر اپنے محدود وقت
کو ضائع کرے جیسے دنیا میں وقت ختم ہوتے ہی پیپر واپس لے لیا جاتا
ہے اسی طرح انسان کا بھی جب وقت ختم ہو جائے تو اللہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس بندے نے
زندگی میں کچھ کیا ہے یا نہیں بلکہ اس سے مہلت عمل چھین لی جاتی ہے ۔
7:دنیوی پیپر حل کرتے وقت کمرہ امتحان میں ممتحن اور اس کے معاونین
ڈیوٹی دیتے ہیں تاکہ طالب علم نقل نہ کریں اور طالب علم ممتحن کے خوف سے نقل نہیں
کرتا۔
اسی طرح خود اللہ تعالٰی اور کراما کاتبین ہر شخص کی نیت اور ہر شخص
کے عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ ایسی
نگران نظر ہے کہ نہ اسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ۔انسان سو جائے تو بھی اس رب کے
فرشتے جاگ رہے ہوتے اور اس کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیںْ۔
۔ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ
قَعِيد۔ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ
رَقِيبٌ عَتِيدٌ ٌ
جب(وہ کوئی کام کرتا ہے تو)دو لکھنے
والے(فرشتے) جو دائیں بایئں بیٹھتے ہیں لکھ لیتے ہیں۔(ق:۱۷)
9-ایک نصیحت یہ بھی ہوتی تھی کہ پیپر میں جتنے سوال حل کرنے کو کہا گیا اس مطلوبہ
تعداد سے ایک سوال زائد لازمی حل کرنا اور
اگر ہو سکے تو اس سے بھی زیادہ کر لینا تاکہ شروع میں حل کئے گئے جوابات غلط ہو جانے
کی صورت میں یہ زائد سوال کمی کوپوراکرسکے اور نمبر کم نہ ہو ۔
زائد سوال حل کرنے کا یہ بھی فائدہ سمجھایا جاتا تھا کہ ممتحن کو اپنی علمی قابلیت
اور ذہانت کا ثبوت دیا جا سکےاور بہترین نتائج
حاصل کئے جا سکیں۔۔۔۔
اسی قسم کی کچھ نصیحتیں اللہ نے ہمیں اس
دنیا کی زندگی کے امتحان میں کامیابی کے لئے
کی ہیں۔فرض نماز کی رکعتوں کے ساتھ سنتیں ادا کرنے اور نفل نمازیں پڑھنے کی ترغیب دلائی
گئی تاکہ اس میں جو کمی و کوتاہی واقع ہو اسے ان کے ذریعے سے پورا کیا جا سکے۔زکٰوۃ
کے ساتھ نفلی صدقات،فرض روزوں کے ساتھ نفلی روزوں کی ترغیب،فرض حج کے ساتھ نفلی حج
اور عمروں کی ترغیب،والدین رشتہ داروں اور باقی لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے ان
کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ احسان کی ترغیب
دلائی گئی،وراثت کی تقسیم ہو یا زندگی کا کوئی بھی پہلو زندگی کے ہر پہلو میں کچھ extra کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔۔۔ہم سب اس سے
بخوبی واقف ہیں کہ ان سب ہدایات کا کیا مقصد ہے کہ آخرت میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے
میں آسانی ہو، جو کمی کوتاہی فرائض میں ہوئی اس کو نوافل عبادات کے ذریعے سے پورا
کیا جا سکے اور اپنے آپ کو قابل اور اہل ثابت کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ان النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
- قَالَ: «إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ النَّاسُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَعْمَالِهِمُ
الصَّلَاةُ»، قَالَ: " يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلَائِكَتِهِ وَهُوَ
أَعْلَمُ: انْظُرُوا فِي صَلَاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا؟ فَإِنْ كَانَتْ
تَامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً، وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ:
انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ، قَالَ: أَتِمُّوا
لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قیامت کے روز لوگوں کے اعمال میں سے جس عمل کا حساب پہلے ہو گا وہ ان کی نماز
ہوگی۔ہمارا رب عزوجل فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ (پہلے ہی)خوب جاننے والا
ہے،میرے بندے کی نماز دیکھو!کیا اس نے اس کو پورا کیا ہے یا اس میں کوئی کمی
ہے؟چنانچہ وہ اگر کامل ہوئی تو پوری کی پوری لکھ
دی جائے گی اور اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو فرمائے گا کہ دیکھو! کیا میرے
بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں؟اگر نفل ہوئے تو وہ فرمائے گا کہ میرے بندے کے فرضوں کو
اس کے نفلوں سے پورا کر دے۔پھر اسی انداز سے دیگر اعمال لئے جائیں گے۔(سنن ابو
داؤد)
۔
ذرا موازنہ کیجیئے دنیا کے
امتحان میں کامیابی کے لئے ہم کتنا فکر مند ہوتے ہیں کہ کہیں ہماری کامیابی اور محنت
داؤ پر نہ لگ جائے،اس سے بچنے کے لئے ہر طرح کی احتیاط کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔حالانکہ
ان نمبروں کا آئندہ عملی زندگی پر کتنا اثر
ہوتا ہے یہ تو آنے والےچند سال ہی بتا دیتے ہیں۔ ۔اس وقتی کامیابی کے لئے ہم اپنے
آپ کو کتنا ہلکان کرتے ہیں،ڈھیروں کتابیں،اکیڈمی، ٹیوٹر غرض کیا کیا اہتمام کئے
جاتے ہیں حتیٰ کہ صحت تک کی بعض اوقات
پرواہ نہیں کی جاتی ۔۔۔۔اپنی ان فکروں اور محنتوں کا موازنہ آخرت کی فکراور اس حوالے
سے کی جانے والی محنت سے کیجیئے۔ اس دنیا میں رہنے کے لئے سولہ
سترہ سال تعلیم حاصل کی اور اس نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے کتنا پڑھا؟ دین کا علم
سیکھنے کے لئے کتنے اساتذہ تلاش کئے؟کتنا وقت لگایا؟ ہماری دنیا کی کوششیں ہی
ہماری آخرت کا آئینہ ہیں ۔ہماری تڑپ،شوق اور لگن کا اندازہ ان ہی باتوں سے ہوتا ہے
کہ ہم اپنی آخرت کے لئے کتنے سنجیدہ اور اس میں کامیابی کے لئے کتنی محنت کر رہے
ہیں ۔۔۔
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا
جواب جاننے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو اپنی ہی کوششوں کے آئینہ میں دیکھنا ہو گا۔
اس ساری بات کو سمجھنے کے
لیے ایک سادہ سی معروف علامتی کہانی جو زندگی کا حاصل بیان کرتی ہے۔ وہ نحوی
پروفیسر (عربی گرائمر کا استاد)کی ہے جو کشتی میں سوار ہوا ۔اپنے علم میں ڈوبا
رہتا تھا۔ملاح سے پوچھنے لگا:۔تمہیں نحو آتی ہے؟ملاح سادہ اور کم پڑھا لکھا
تھا۔کہنے لگا۔ نہیں جی مجھے تو نحو نہیں آتی،اس پروفیسر نےکہا بس تم نے تو پھر
آدھی زندگی ضائع کر دی۔
سفر آگے بڑھا، کشتی طوفان
میں پھنس گئی۔ملاح نے پوچھا:۔ کیوں پروفیسر صاحب تیرنا آتا ہے؟پروفیسر نے جواب
دیا: نہیں ۔ملاح نے کہا:تو بس پھر تم نے
پوری زندگی ضائع کر دی۔۔۔۔تو علم نافع یعنی اصلی زندگی کا علم نہ ہوا تو
زندگی ضائع ہو گئی۔ملک الموت نے آکر ڈگریاں نہیں پوچھنی۔یہاں تمام تر مقابلہ صرف
دنیوی علوم کا ہے جب کہ آخرت پوری قرآن و سنت پر انحصار کر رہی ہے۔
اصل بات تو یقین کی ہے
۔ہم جانتے ہیں کہ ہمیں دنیا کے امتحانات میں بری کارکردگی دکھانے پر ناکامی کا یقین
ہوتا ہے مگر آخرت کے معاملے میں بے یقینی اور دھوکے کا شکار ہیں اور محض تمناؤں اور
خواہشات کے ذریعے سے جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
۔وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً
وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى
اور میں نہیں خیال کرتا کہ
قیامت قائم ہو گی اور اگر قیامت سچ مچ بھی ہو اور میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا
بھی جاؤں تو میرے لیے اس کے ہاں
بھی خوشحالی ہے۔
(حم السجدۃ:۵۰)
اللہ مجھے اور آپ کو صحیح معنوں میں آخرت کی
تیاری کی توفیق عنائیت فرمائے!(آمین)
تحریر
سارہ اقبال
ماشااللہ ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت تحریر ۔۔۔ اللہ ہم سب کو دین کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے
ReplyDelete