ذرا سوچئے!
کہتے ہیں کہ ایک اونچے خاندان کا راجہ ایک مرتبہ نہاتے
نہاتے ڈوبنے لگا،کسی کم ذات نے دیکھا تو اسے لپک کر بچا لیا راجہ کی جب حالت بہتر
ہوئی تو اس نے اپنے محسن کا نام پتہ پوچھا جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی مدد
کرنے والا ایک نیچی ذات کا آدمی ہے تو آگ بگولا ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ جس
بد ذات نے اس کے جسم کو ہاتھ لگا کر ناپاک
کیا ہے،اس کو سخت سزا دی جائے چنانچہ اس کو سزا دی گئی تاکہ لوگوں کو عبرت و نصیحت
ہوئی کہ وہ آئندہ اس کی جرات نہ کریں۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی
اس کے بعد یہ ہوا کہ راجہ کو دوبارہ یہ واقعہ پیش آیا اور اس کی جان پر بن
آئی ،وہی پچھلا مجرم اب بھی دیکھ رہا تھا اور راجہ کی مدد کر سکتا تھا۔مگر اس بار
اسنے راجہ کے جسم کو ناپاک کرنے کی غلطی نہیں کی ۔مگر اس بار بے رحم دریا نے اور
راجہ کے تکبر نے اس عالی خاندان راجہ کو غرق کر دیا۔
آپ نے شاید یہ پہلے بھی کہانی سنی ہو اور آپ کو اس میں
مبالغہ معلوم ہوا۔مگر ہماری حالت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔خاندانی غرور
اور قومی تعصب نے ہزاروں خاندانوں اور قوموں کو غرق کر کے رکھ دیا ہم نے بھی کسی ایسے شخص کی راہنمائی کو قبول
نہیں کرتے جس کے متعلق روائتی یا ذہنی طور پر کمتری کا خیال دل میں بیٹھ جائے،یا
بد قسمتی سے وہ ہمارے سٹیٹس کا نہ ہو۔اخلاقی اور دینی تاریخ میں آپ کو اس کی بکثرت
مثالیں ملیں گی کہ دور حاضر میں علما اور
مولوی سے نفرت والا رویہ رکھا جاتا ہے ان کی طرف سے ملنے والی آگاہی اور راہنمائی
کو منفی رنگ دے کر دشمنانہ رویہ اپنایا جاتا ہے ان کو زندگی اور خوشیوں کا دشمن
اور(سب سے بڑھ کر) جاہل قرار دیا جاتا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم علم مغرب سے لیتے ہیں ،زندگی
کا معیار مغرب سے لیتے ہیں یہاں تک کہ ہم دینی نظریات اور دینی تحقیقات بھی مغرب
سے لینے لگے ہیں جو وہ کہہ دیں اس کو حرف آخر مانا جاتا ہے۔اس حالت زار سے کوئی
بھی اسلامی ملک مستثنیٰ نہیں۔ہمارے دماغوں پر مغرب کے نظریات کا اتنا بڑا بوجھ ہے
کہ اس بوجھ کی بنا پر ہمیں حقیقی آزادی سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں مل رہا .نتیجہ یہ ہے ہم ذہنی انشار کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ سوائے
کمزوری ، پراگندگی اور سوائے بے اعتمادی و کشمش کےکچھ اور نہیں ہو سکتا ۔آج ہماری
نوجوان نسل تیزی سے لادنینت کی طرف بڑھ رہی
ہے اور اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں کیونکہ ہم نے خود ہی بچاؤ اور
ہدایت کے راستے ان پر بند کر دیئے ہیں کیونکہ جنہوں نے ہمیں ڈوبنے سے بچانا تھا ہم
نے ان کے ہی ہاتھ پیر مفلوج کر دیئے ہیں اور تباہی و گمراہی کی اس دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں جس کی گہرائی
کا ہمیں اندازہ نہیں۔اس تباہی سے بچنے کے لئے حل تو موجود ہے مگر افسوس فی الوقت
ہم لینا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔
سوچئے
گا ضرور کہ ہم کس صف میں کھڑے ہیں اور کس سمت کو جا رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment