ذرا
سوچئے
کل مجھ
سے میری کلاس کی ایک خاتون نے ایک سوال کیا کہ آپ نے اپنی فیس بک پر جنید جمشید
کے حوالے سے کچھ نہیں پوسٹ کیا یا لکھا تو میں نے مسکرا کر یہ کہا کہ نہ تو میں
کوئی پروفیشنل رائٹر ہوں اور نہ ہی میں ہر موقع پر اپنی ڈی پی بدلتی ، نہ ہی میرا علم اس قابل ہے کہ میں ہر ہونے
والی بات پر اپنے تاثرات دوں۔بلکہ اگر کبھی لکھا بھی تو اپنی اور دوسروں کی اصلاح
کے لئے ہی لکھا۔ واقعات پر رائے دینا کبھی بھی مقصود نہیں تھا اور نہ ہی یہ شرعی
لحاظ سے کوئی پسندیدہ مشغلہ ہے کہ وقوع پزیر ہونے والے ہر واقعہ کے بارے میں اپنی
رائے اور تبصرہ دیا جائے یا اس حوالے سے گفتگو کی جائے۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ
وَسَلَّمْ: «سَيَكُونُ رِجَالٌ مِنْ أُمَّتِي يَأْكُلُونَ أَلْوَانَ الطَّعَامِ، وَيَشْرَبُونَ
أَلْوَانَ الشَّرَابِ، وَيُلْبِسُونَ أَلْوَانَ اللِّبَاسِ، وَيَتَشَدَّقَونَ فِي الْكَلَامِ
أُولَئِكَ شِرَارُ أُمَّتِي»
رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ـعنقریب میری امت کے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو
انواع واقسام کے کھانے کھائیں گے ،انواع و اقسام کے مشروب پیئیں گے اور انواع و اقسام کے لباس پہنیں گے ،اور بڑی
لچھے دار لیکن غیر محتاط گفتکو کریں گے۔(طبرانی)
صحابہ
اپنی گفتگو کے معاملے میں بہت محتاط تھے زیادہ بولنا معیوب سمجھا جاتا تھا ورنہ
اگر ان کا طرز گفتگو میرے اور آپ کے جیسا ہوتا تو تبصرے کرنے کے لئے واقعات کم نہ
تھے آئے دن غزوات ،جنگیں،اور مختلف واقعات ہوتے تھے مگر ایک خاموشی۔۔کیونکہ وہاں
نگاہ عبرت کی نگاہ تھی ،عمل پر توجہ مرکوز تھی اور ہر وقت اس بات کی فکر کہ میری
ذمہ داری کیا ہے اور شریعت اس موقع پر مجھ سے کیا چاہتی ہے
مگر ہم
کسی بھی واقعہ پر تبصرہ کرنا ،اس کے بارئے میں مزید جاننا اور اس بارے میں پوسٹ
شیئر کرنے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں وہ واقعہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں
لاتا۔ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمارے سامنے احد اور بدر کا میدان ہو تو تب بھی ہم ہر
محفل اور مجلس میں اس بارے میں گفتگو کریں پوسٹ شیئر کر دیں مگر عملی طور پر جنگ
میں شاید ہی کوئی شریک ہو
۔
کثرت
کلام انسان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے کہ انسان اپنے ایمان کو خراب
کرنے والی گفتگو کر بیٹھتا ہے۔ٓاحادیث رسول کیا ہیں جو کہ مجموعی طور پر چند ہزار
ہیں یہ رسول اللہ کی کی ہوئی کل زندگی کی گفتگو ہے جو میرے اور آپ کے سامنے اللہ
نے مکتوب صورت میں رکھ کر ایک میزان بھی دے دیا کہ گفتگو کیسی اور کتنی ہونی
چاہئے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُكْثِرُوا
الكَلاَمَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الكَلاَمِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللهِ
قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللهِ القَلْبُ القَاسِي.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ گفتگو
نہ کیا کرو کیونکہ کثرت کلام دلوں کو سخت کر دیتی ہے اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ
اللہ سے دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔(تزمذی)
اسی طرح سے ایک اور حدیث میں آتا ہے۔
من صمت نجا
جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
خاموشی باعث نجات ہے کیونکہ ہم اپنی گفتگو اور معاملات میں افراط و
تفریط کا شکار ہیں ،جس شخص سے ہم محبت کرتے ہیں یا جو انسان ہمارے مذہبی عقیدے کا
ہوتا ہے اس کے لئے ہم زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور جو شخص ہمارے
مطابق نہ ہو اس کی ہر اچھی بات اور ہر اچھا پہلو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے یا
ہمارے ہاں وہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ہم نے جنید جمشید کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا کسی نے اس کو کافر
اور جہنمی قرار دیا تو کسی نے اس کو جنتی بنا دیا۔
اس ضمن میں ایک واقعہ یوں
ہے
لنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا فَعَلَ كَعْبٌ؟»
، قَالُوا: مَرِيضٌ، فَخَرَجَ يَمْشِي حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: «أَبْشِرْ
يَا كَعْبُ» ، فَقَالَتْ أُمُّهُ: هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةُ يَا كَعْبُ، فَقَالَ النَّبِيُّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذِهِ الْمُتَأَلِّيَةُ عَلَى اللَّهِ؟» قَالَ:
هِيَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «مَا يُدْرِيكِ يَا أَمَّ كَعْبٍ؟ لَعَلَّ
كَعْبًا قَالَ مَا لَا يَنْفَعُهُ، أَوْ مَنَعَ مَا لَا يُغْنِيهِ
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو اپنی
مجلس میں نہ پا کر ان کے بارے میں دریافت کیا کہ کعب کو کیا ہوا تو بتلایا گیا کہ
وہ بیمار ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے چل پڑے یہاں تک کہ ان
کے (گھر)داخل ہوئے اور فرمایا (اے کعب
تمہارے لئے خوشخبری ہو(خوش ہو جاؤ))،تو ان صحابی کی ماں فورا بولی مبارک ہو اے کعب تمہارے لئے جنت ہے ،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :یہ کون ہے اللہ پر قسم باندھنے والی؟
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلا اللہ علیہ
وسلم یہ میری ماں ہے۔تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے کعب کی ماں تمہیں کیا
معلوم کعب نے کوئی لا یعنی بات کی ہو یا کسی معمولی چیز کو دینے سے روکا ہو۔۔۔
اس حدیث میں ہمارے لئے سبق ہے کہ ایک صحابیہ کو
ایک صحابی کے بارے میں کوئی بھی رائے دینے کا اختیار نہیں دیا گیا تو ہمارے پاس
کون سا اختیار ہے کہ ہم کسی کے بارے میں جنتی اور جہنمی ہونے کی رائے دیں۔
درست بات یہ ہے کہ کسی نیک سے نیک آدمی کے خواب کو بھی دلیل نہیں بنایا
جا سکتا. صرف انبیا کے خوابوں پر ایمان لانا لازم ہے کیونکہ وہ وحی کی ایک قسم ہوتے
ہیں.ورنہ خواب سے نہ ہی قانون بنتے ہیں اور نہ ہی کوئی شرعی حکم نکالا جا سکتا ہے
کیونکہ اس کے لئے نصوص(قرآن و سنت) درکار ہوتی ہیں۔
جنید جمشید جنتی ہے کہ نہیں یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے یہاں نبی کریم صل
اللہ علیہ و سلم کے صحابی ہیں جنگ میں شہید ہوئے ہیں پھر بھی معاملہ اللہ کے پاس ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن نبی کریم صل اللہ
علیہ و سلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دئیے جو یہ کہ رہے تھے کہ فلاں بھی
شہید ہے اور فلاں بھی شہید ہے یہاں تک کہ ان کا گزر ایک آدمی پر ہوا اس کے بارے میں
بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہیں نبیؐ نے فرمایا (ہرگز نہیں) میں نے اسے جہنم
میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی اس کے بعد نبی کریم
صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابن خطاب جا کرلوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف
مومنین ہی داخل ہوں گے چنانچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین
ہی داخل ہوں گے
مسند احمد 203 صحیع ابن حبان 4848صحیع مسلم
۱۱۴
اس دنیا سے جانے والے کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے ،ہمارے ذمہ بس یہ
باقی ہے کہ مرنے والے کی کوتاہیوں کو سچے دل سے معاف کرکے اس کا تذکرہ ہمیشہ اچھے
الفاظ میں کریں اور دعائے مغفرت کریں
۔
اگر سیکھنا ہے تو طیارے کے حادثہ سے یہ سیکھئے کہ موت کسی کو وقت
نہیں دیتی کہ انسان دو رکعت نفل پڑھ کر توبہ کر لے یو لوگوں سے اپنے قصور معاف
کروالے۔تو پھر آج سے ہمیں اس کی تیاری کرنی ہے۔
اگر جنید جمشید نے حرام کام جو کہ گلیمر اور شہرت سے بھرپور تھا جس میں کروڑوں ایک رات میں کمایا جا سکتا تھا ، تائب
ہو جانے پر اللہ نے اس کو حلال راستہ اپنانے پر اس سے بڑھ کر عزت و دولت دی۔تو
ہمیں بھی دنیا کے حقیر فائدوں کے لئے حرام کو چھوڑنا ہوگا چاہے وہ حرام ذرائع سے
حاصل کی ہوئی دولت ہو،غلط رسوم و رواج ہو یا لباس میں حرام ہو یا روزمرہ کے
معاملات میں سنت رسول کی خلاف ورزی ہو۔رزق و عزت اللہ نے لکھی ہوئی ہے اب یہ ہمارا
اپنا اختیار ہے کہ اس کو حلال سے حاصل کرتے ہیں یا حرام سے.
اس واقعے نے ہمارے دل پر کتنا اثر ڈالا ہے اس کو پرکھنے کے لئے ایک
مثال ہی کافی ہے کہ کل انڈیا پاکستان کا میچ ہو تو ہماری ساری توجہ اور سارا وقت
اس میچ کو دیکھتے گزر جائے گا اور پھر سب اس کو بھلا کر اس میچ کی رنگینیوں کو گم
ہو جائیں گے پھر فیس بک اور ڈی پی اس سے بھر جائیں گے۔کیونکہ ہمارے لئے یہ سب
واقعات ہوتے ہیں ہم ان سے اثر نہیں لیتے۔۔۔
Well done keep it up👍
ReplyDelete